تحریر:عثمان مایار
عام انتخابات کودو ہفتے پورے ہوچکے ہیں۔انتخابات میں دھاندلی دھاندلی کاشور بھی چند دِن تک جاری رہنے کے بعد کافی حد تک کم ہو چکا ہے ۔کہتے ہے کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا اوریہی نسخہ پاکستان کے سیاستدانوں پربھی وقتاً فوقتاً آزمایاگیا ہے مثال کے طور پراس سے پہلے منعقد ہونے والے انتخابات میںکبھی لاہور کے جاتی امرا تو کبھی سندھ کے بھٹوہاؤس میں رونقیں سج جاتی تھیں۔ اسی طرح انتخابی کامیابی کبھی کبھی گجرات کے چودھریوں ،کراچی کے مہاجروں اور مذہب کے نام پرسیاست کرنے والے خیبر پختونخوا کے قابل احترام مولویوں کے در بھی چھوم لیتی تھی مگر اب کے بار بازی مکمل طور پرپلٹ گئی تھی اور اسلام آباد کا بنی گالہ رونقیں بکھیرنے کا مرکزٹہرا ۔
ٍ نہ جانے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی حریف کو سائیڈ پر کرنے اورشریف خاندان کواڈیالہ جیل کے مہمان بنانے سمیت بیک
وقت وفاق، خیبرپختونخوااور پنجاب میں منصب اقتدار کے لئے عددی برتری حاصل کرنے کے باوجود بھی پی ٹی آئی کے سیاسی مرکزبنی گالہ کی در و دیواروں پر ایک انجانا ساخوف چھایا ہوا ہے وہاں ہرطرف پُراسرار سی خاموشی پھیلی ہوئی ہے ، ہوسکتا ہے کہ یہ میرا وہم ہو یایہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ تحریک انصاف کو پہلی مرتبہ سندھ کے سیوا پورے ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا ہے اوراس سرپرائز
خوشی کوانجوائے کرنے اور گزشتہ سیاسی پارٹیوں (آئی جے آئی،پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق ،ایم کیوایم اور متحدہ مجلس عمل)کی طرح آئندہ پانچ سال تک عوام کے خون پسینے کی کمائی ہڑپ کرنے کے لئے موثر ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا اگر ایسا ہوتا تو صوبوں کے وزرائے اعلی اور کابینہ کے اراکین کے نام اب تک سامنے آچکے ہوتے(کالم تحریر کرتے وقت یہ صورتحال واضح نہیں تھی کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلی کاتاج پرویزخٹک، عاطف خان،محمود خان اور شہرام خان ترکئی کے سرسجھے گا یاکسی اور کے)پی ٹی آئی میں حکومتی عہدوں کی تقسیم کے حوالے سے پیدا شدہ ڈیڈلاک کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح تحریک انصاف میں موروثی سیاست کاکوئی عمل دخل نہیںاور اسی وجہ سے فیصلے کرنے میںٹائم زیادہ لگ جاتاہے (واللہ اعلم) بھاری مینڈیٹ حاصل کرکے عمران خان کرکٹ کے بعد سیاسی میدان کا بھی مرد آہن بن جائے گا یا دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح اُن کی جماعت بھی قصہ پارینا بن جائے گی ؟انہی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے خان صاحب کی بیس سالہ سیاسی کیرئیراوراُن کی پارٹی کی موجودہ کیفیت کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اسی طویل سیاسی جدوجہد میں عمران خان سے کئی غلط فیصلے بھی سرد ہوئے جس سے نہ صرف اُن کی ساکھ بلکہ پارٹی کوبھی نقصان پہنچایا۔
میرے الفاظ سے لاکھ اختلاف سہی مگر یہ حقیقت ہے کہ عمران خان صاحب کو 2013 الیکشن سے پہلے تحت اسلام آباد پرقابض ہونے کی بشارت مل چکی تھی اور رسمی کاروائی کوعملی جامہ پہنانے کے لئے حالیہ انتخابات کے دوران کروڑوں ووٹروں کی اچھی خاصی عزت
افزائی بھی کی گئی ۔الیکشن میںمنظم انداز میں ہونے والی دھاندلی کے حوالے سے ہم خیال سیاسی پارٹیوں کے الزامات کاذکر تو نہیں کرونگا مگر پشاور سے لیکرکراچی اور لاہور سے لیکر کوئٹہ تک کچرہ کُنڈیوں اور سکولوں سے ملنے والے بیلٹ پیپرز کی برآمدکے بعد چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا خان اور الیکشن کمیشن کادیگرعملہ اپنے عہدوں پر مزید رہنے کاآیاکوئی قانونی جواز رہتاہے؟بدقسمتی سے دھاندلی پاکستان
کے انتخابی عمل کا حصہ بن چکی ہے مگر موجودہ الیکشن میں ووٹ کے تقدس کی جوپامالی کی گئی آیا اُس سے موجودہ لولی لنگڑی جمہوری نظام اور کمزور نہیں ہوگا؟گزشتہ انتحابات میں جب مسلم لیگ ن برسراقتدار آئی تو خان صاحب نے بھی الیکشن میں دھاندلی کاشور شرابا کرکے الیکشن کمیشن کے عملے کی استعفی کامطالبہ کیاتھا حالانکہ موجودہ انتخابات کی نسبت 2013انتخابات بہت ہی بہتر تھے یورپی یونین کے مبصرین نے بھی موجودہ انتخابی ڈرامے کی تصدیق کی ہے ۔اب اگر تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیاں انتخابی بے قاعدگیوں اور دھاندلی کے شکایات اور الیکشن کمیشن کے عملے کے استعفی کامطالبہ کررہی ہے توخان صاحب کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِن الزامات کی آزادانہ تحقیقات کروانی چاہیے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا اور کپتان کے سیاسی وقار میں بھی اضافہ ممکن ہوسکے گا۔
جس ڈرامائی انداز میں تحریک انصاف نے الیکشن میں کامیابی کے جھنڈے گاڑیں اسی ہی انداز میںپارٹی راہنما جھانگیر ترین نے پنجاب سمیت دیگر صوبوں سے منتخب ہونے والے آزاد امیدواروں کوراتوں رات پی ٹی آئی میں شامل کرواکر وفاق اور پنجاب میںتو اپنے پارٹی کی پوزیشن تومستحکم بنادی مگر دنیامیں پاکستان کی سیاست کومزید بے آبرو کردیاگیا۔یہ آزاد امیدوار بھیڑ بکریوں کی طرح بھک گئے یا وزارتوں کی لالچ میں کپتان کے ٹیم کا حصہ بنے؟اِن سوالات کے جوابات آنے والے وقتوں میں خود بخود سامنے آجائے گا۔وطن عزیز کی سیاست بھی گرگٹ کی طرح رنگ جلد ہی تبدیل کرتی رہتی ہے ۔بنی گالہ میں سٹمپ پیپرز پر دستحط کرنے والے یہی معزز رُکن پارلیمنٹ وقت آنے پرعمران خان کے کسی مخالف کے گھربھی مہمان بن سکتے ہیں ۔سیاسی اتحاد بھی تو توٹتے ہی رہتے ہے ظاہر ہے کہ جب سیاست کرنی تو کوئی پاگل ہے کہ ذاتی مفاد کو عوامی مفاد پر قربان کردے گا۔ہم تو ملک میں جمہوریت کے خامیوں میں سے ہیںاورچاہتے ہیں کہ تحریک انصاف اپنا آئینی مدت احسن طریقے سے پورا کریں ۔عمران خان صاحب کی کسی قسم کاغلط فیصلہ یاخدانخواسطہ ملک میں کسی قسم کا آئینی بحران ریاست کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی بنیادیں بھی کھوکھلی کرسکتی ہے ۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]