دور حاضر کے لوگوں کے احساسات کی ترجمانی کرتی تحریر ۔تحریر مکمل پڑھیے گا ۔ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
ایک دفعہ ایک بچے نے اپنےدادا کو آم کا درخت لگاتے دیکھا ۔کہنے لگا دادا ابو آپ یہ آم کا درخت کیوں لگا رہے ہیں جبکہ جب اس نے پھل دینا شروع کرنا ہے آپ نے تو زندہ نہیں رہنا ۔ آپ تو اس درخت کا پھل بھی نہیں کھا سکتے ۔
دادا ابو مسکراۓ اور کہا اگر یہ بات میرے دادا ابو نے سوچی ہوتی تو آج ہمیں اور تمھیں کھانے کو آم نا ملتے ۔یہ ماننا ہوگا کہ ہماری نٸی نسل مفاد پرست زیادہ ہے اس کی سب سے بڑی مثال اولڈ ہاوس ہے ۔اگر میں اپنے دور کے احساسات کی ترجمانی کروں تو یقین مانیے ہمخوش نصیب لوگ ہیں آپ نے کبھی سوچا ہم کتنے خوش نصیب لوگ ہیں۔ کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے مٹی کے بنے گھروں میں بیٹھ کر پریوں کی کہانیاں سنیں۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے بچپن میں محلے کی لکڑی کی بنی چھتوں پہ اپنے دوستوں کیساتھ روایتی کھیل کھیلے۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے لالٹین کی روشنی میں ناول پڑھے۔ جنہوں نے اپنے پیاروں کیلیئے اپنے احساسات کو خط میں لکھ کر بھیجا۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے بیلوں کو ہل چلاتے دیکھا۔ جنہوں نے کھلیانوں کی رونق دیکھی۔
ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے مٹی کے گھڑوں کا پانی پیا۔ ہم وہ آخری لوگ ہیں جنہوں نے عید کا چاند دیکھ کر تالیاں بجائیں۔
ہمارے جیسا تو کوئ نہیں کیونکہ ہم وہ آخری لوگ ہیں جو سر پہ سرسوں کا تیل انڈیل کر اور آنکھوں میں سرمہ لگا کر شادیوں پہ جاتے تھے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو پلاسٹک کے جوتے پہن کے گلی ڈنڈا کھیلتے تھے اور گلے میں مفلر لٹکا کے خود کو بابو سمجھتے تھے۔
ہم وہ دلفریب لوگ ہیں جنہوں نے شبنم اور ندیم کی ناکام محبت پہ آنسو بہائے اور جہانگیر خان اور جان شیر خان کو نکمے ترین انسان سمجھتے رہے۔
ہم وہ بہترین لوگ ہیں جنہوں نے تختی لکھنے کی سیاہی گاڑھی کرنے کیلیئے دوات میں چینی پھینکی۔ جنہوں نے سکول کی گھنٹی بجانے کو اعزاز سمجھا۔ ہم وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہوں نے رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی۔ ہمارے جیسا تو کوئ بھی نہیں۔
کبھی وہ بھی زمانے تھے
سب چھت پر سوتے تھے
اینٹوں پر پانی کا
چھڑکاؤ ہوتا تھا
ایک سٹینڈ والا پنکھا
بھی چھت پر ہوتا تھا
لڑنا جھگڑنا سب کا
اس بات پر ہوتا تھا
کہ پنکھے کے سامنے
کس کی منجی نے ہونا تھا
سورجُ کے نکلتے ہی
آنکھ سب کی کھلتی تھی
ڈھیٹ بن کر پھر بھی
سب ہی سوئے رہتے تھے
وہ آدھی رات کو کبھی
بارش جو آتی تھی
پھر اگلے دن بھی منجی
گیلی ہی رہتی تھی
وہ چھت پر سونے کے
سب دور ہی بیت گئے
منجیاں بھی ٹوٹ گئیں
رشتے بھی چھوٹ گئے
بہت خوبصورت خالص رشتوں کا دور لوگ کم پڑھے لکھے اور مخلص ہوتے تھے اب زمانہ پڑھ لکھ گیا تو بے مروت مفادات اور خودغرضی میں کھو گیا۔
کیا زبردست پڑھا لکھا مگر دراصل جاھل زمانہ آ گیا۔
اگر ان تمام باتوں کا خلاصہ نکالوں تو آسان لفظوں میں نسل نو کے پاس ایجوکیشن نہیں انفارمیشن کا ایک بڑا مجموعہ ہے جو تہذیب سے زیادہ ضروریات زندگی پورا کرنے کے کام آتا ہے چاہے ان کا طریقہ کار کوٸی بھی ہو ۔ معلومات کے مجموعہ کو۔ہم نے تعلیم کا نام دے رکھا ہے ۔ اگر ایک سچ کہوں تو ہم ہی وہ آخری لوگ ہیں جنھوں نے اپنی نٸی نسل کوتن آسانی کی لت ڈال کر ان کی تربیت سے غفلت برتتے ہوۓ عیاشی کو پر سکون زندگی کا نام دے دیا.شکریہ ڈاکٹرمحمد اعظم رضا تبسم . اچھی بات اگے پھیلانا بھی صدقہ ہے .. شکریہ … ہمارے پیج کا لنک دستیاب ہے …https://www.facebook.com/Dr.M.AzamRazaTabassum/
ڈاکٹر صاحب کی تحریریں .واٹس ایپ پہ حاصل کرنے کے لیے .ہمیں اپنا نام .شہر کا نام اور جاب لکھ کر اس نمبر پر میسج کریں . 03317640164.