ڈی بریفنگ / شمشاد مانگٹ
پندرہ بیس سال پہلے پاکستان میں جو فلمیں بنتی تھیں ان کے ستارے ساتھ ضرور لکھے ہوتے تھے۔ کچھ فلمیں سلطان راہی کے نام پر اور کچھ فلمیں وحید مراد اور ندیم کے نام پر ہٹ ہو جاتی تھیں ۔ ماضی میں یا تو فلمی ستارے شہرت رکھتے تھے اور یا پھر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف امریکی چھتری تلے اکٹھے کئے گئے ’’9 ستارے ‘‘شہرت رکھتے تھے ۔
قومی اتحاد میں شامل ان تمام 9 ستاروں میں تمام مسالک کے مذہبی ہیروز اور ’’تھکے ٹٹے‘‘ سیاستدان شامل تھے لیکن ان کے پیچھے صحت مند اور تنو مند اسٹیبلشمنٹ پوری طاقت سے کھڑی ہوئی تھی۔ بہرحال قصہ مختصر ’’9 ستاروں‘‘ کی فلم ہٹ ہوئی اور پاکستان کے حقیقی جمہوری ہیروز ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر تمام نے کندھوں پر سرخرونی کے ستارے لگا کر قوم کو بھٹو کے بغیر جینے کی تسلی دینا شروع کر دی۔
تاریخ کا جبر دیکھیئے کہ ہماری آج کی اسٹیبلشمنٹ ان 9 ستاروں کے بھوت کو قابو کرنے کے لئے اس وقت اپنی پوری طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور وہ ان 9 ستاروں کی بے شرمی اور ڈھٹائی دیکھئے کہ جس پلیٹ سے ساری عمر کھایا آج اسی پلیٹ میں چھید کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے اپنے دانت نوکیلے کرنیکی جدوجہد کر رہے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹو سے لاکھ اختلافات ہوں گے لیکن اس کی دیانتداری کے اس کے بدترین مخالف بھی قائل تھے۔ اس دور کے لیڈر عمران خان پر الزامات کے انبارلگے ہوئے ہیں لیکن عمران خان سے طلاق لینے والی خواتین بھی اور اس کے مخالفین بھی اس کی دیانتداری پر شک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
عمران خان عوام کو کرپشن اور کمیشن خور مافیا سے نجات دلانے کا عزم لیئے ہوئے ہیں لیکن عصر حاضر کے 9 ستارے عمران خان سے نجات کے لئے گٹھ جوڑ کر چکے ہیں ۔ تقریباً چالیس سال بعد ایک بار پھر دیانتدار اور پرجوش قیادت کو راستے سے ہٹانے کے لئے 9 کرپٹ ستارے متحد ہوئے ہیں ۔ فی الحال ان ستاروں کا الزام ہے کہ عمران خان کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے جبکہ ان کرپٹ 9 ستاروں کے اپنے قدموں کے نشان کلبھوشنی نیٹ ورک تک جاتے دیکھے گئے ہیں۔پاکستان میں اب پہلے جیسا فلمی کلچر نہیں رہا البتہ سیاسی کلچر پہلے سے بھی زیادہ آلودہ ہے۔ اس دور کی 9 ستارو ں والی اپوزیشن میں شامل اگر سیاسی اداکار دیکھے جائیں تو ہر محب وطن شہری بے چین ہو جاتا ہے کہ ملک کے اربوں اور کھربوں لوٹ کر بیرون ملک جائیدادیں خریدنے والے کس منہ سے عوام کے درد کا ذکر رہے ہیں ۔ تازہ ترین بننے والے اس 9 جماعتی اتحاد کا نام ’’پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر الیکشن‘‘ ہے ۔
اس اتحاد میں شامل مولانا فضل الرحمان کو اس کرپشن بچاؤ اتحاد کی زیادہ جلدی تھی۔ اصولی طور پر اس الائنس کا نام ’’گرینڈ لوٹرز الائنس ‘‘ ہوتا تو یہ زیادہ جلدی مقبول ہو جاتا کیونکہ الائنس میں شامل ایک بھی ایسا سیاسی اداکار شامل نہیں ہے جس پر قومی دولت لوٹنے کا الزام نہ ہو۔
مولانا فضل الرحمان بذات خود 2002 ء سے قومی خزانے کو ذاتی بھینس خیال کرتے ہوئے نیچے بیٹھ کر دودھ پی رہے ہیں ۔ ان کا الزام ہے اور دعویٰ ہے کہ وہ الیکشن نہیں ہار سکتے ۔ اگر ان کا دعویٰ درست ہے تو پھر مولانا صاحب کو چاہئے کہ قوم کو بتائیں کہ
انہوں نے اپنے حلقوں میں کونسی دودھ کی نہریں بہا دی ہیں کہ جس کے بعد ان کا ہارنا ناممکن ہے ۔ اس کے علاوہ مولانا صاحب کئی سالوں سے ’’نان سٹاپ‘‘ کشمیر امور کمیٹی کے چیئرمین ہیں ۔ قوم کو بتائیں کہ آزادی کشمیر کے لئے انہوں نے کونسی خدمات سرانجام دی ہیں کہ جس سے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے میں مدد ملی ہو ۔ کشمیری بھارتی فوج کے مظالم دیدہ دلیری سے سہہ رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمان اس سے زیادہ دیدہ دلیری سے چیئرمین امور کشمیر کمیٹی کے طور پر مراعات لیتے رہے۔
اس ’’بدعنوانوں ‘‘ کے الائنس میں شہباز شریف بھی ہیں۔ان کی کرپشن کے قصے لاہور نیب سے اسلام آباد نیب تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ نیب کی تحقیقات اپنی جگہ پر سہی لیکن میاں شہباز شریف نے تو دعویٰ کیا تھاکہ وہ آصف علی زرداری کے بیرون ملک پڑے ہوئے پیسے پیٹ پھاڑ کر واپس لائیں گے لیکن نہ وہ پیسے واپس لا سکے اور نہ ہی آصف علی زرداری کے بغیر اپوزیشن کر سکے ۔
اسی طرح آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو آئے روز ایف آئی اے طلب کر رہی ہے ۔ اسفند یار ولی کو بھی عوام نے ووٹ کی طاقت سے مسترد کر دیا ہے جبکہ محمود خان اچکزئی وہ شخص ہے جس کی زبان سے پاکستان کے لئے کلمہ خیر کبھی نہیں نکلا۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ’’دوغلے‘‘ راہنما فاروق ستار بھی عوام کے ہاتھوں بے آبرو ہو کر اس الائنس میں شامل ہوئے ہیں ۔ مولانا سراج الحق اگرچہ بدعنوانی کے الزام کی زد میں نہیں ہیں لیکن اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے اور مولانا فضل الرحمان کا دل رکھنے کے لئے وہ بھی اس کرپشن زدہ اتحاد کا حصہ بننے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگرچہ سراج الحق نیک نام لیڈر جانے جاتے ہیں لیکن آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے اگر وہ اس سے الگ نہ ہوئے تو عنقریب ان کی پہچان بھی مولانا فضل الرحمان سے ملتی جلتی ہو جائے گی۔
بہرحال عمران خان کی یہ ایک اور کامیابی ہے کہ حلف اٹھانے سے پہلے ہی اس نے قومی دولت لوٹنے والوں کو ایک کشتی میں سوار ہونے پر مجبور کر دیا ہے اس کشتی کے سواروں کو پہلے عوام نے ووٹ کی طاقت سے دھتکارا ہے اور اب بدعاؤں سے غرق کرے گی ۔ 1977ء کے 9 ستاروں اور 2018 ء کے 9 ستاروں کی پوزیشن دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے ۔
’’وہی منزلیں وہی راستے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں ‘‘
41 سال پہلے جنہوں نے 9 ستارہ اتحاد کو جنم دیا تھا لگتا ہے انہی کے ہاتھوں اس کا انجا
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]