*ایک ڈور اپنے پیارے کے ہاتھ میں باندھ ک اسکی حفاظت کی پراتناــ*
#ضرب_تحریر ـ *فرحان منہاج* ـ
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہندو برادری آج رکشا بندھن کا تہوار منارہی ہے. رکشا بندھن یا راکھی کا تہوار بہن بھائیوں کے پیار، ان کے خوبصورت اٹوٹ رشتے کا وہ تہوار ہے جو دنیا بھر میں موجود ہندو برادری روایتی جوش و خروش سے منا تی ہے۔
اس دن ہندو گھرانوں میں بہنیں دیا، چاول اور راکھیوں سے سجی پوجا کی تھالی تیار کرتی ہیں اور اپنے بھائیوں کی کلائی پر پیار سے راکھی باندھ کر ان کی صحت مندی، عمردرازی اور کامیابیوں کے لیے دعا کرتی ہیں۔ محبت کے اس اظہار کے جواب میں بھائی اپنی بہن سے دکھ سکھ میں ساتھ رہنے اور اس کی حفاظت کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور اسے تحفہ دیتا ہے۔
رکشا بندھن کی تاریخ کے حوالے سے مختلف روایات ہیں جن میں سے ایک ہے کہ رکشا بندھن پانچ ہزار سال قبل بھارتی دارالحکومت دہلی کے قریب ایک چھوٹے سے علاقے ہستینہ پور میں منایا گیا ، جس کے بعد اس تہوار کو ہر سال باقاعدگی سے منایاجانے لگا، ہندو مذہب کے مطابق اس دن شری کرشن کی بہن دھورتی نے شری کشن کو راکھی باندھی تھی اور شری کرشن نے سماج میں ان کی لاج رکھی تھی جبکہ سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرونانک دیوجی نے بھی اپنی بہن نانکی کو راکھی باندھی تھی ،اس مناسبت سے اس دن ہندو اور سکھ خواتین اپنے بھائیوں کو راکھی باندھتی ہیں اور ان کی صحت اور لمبی عمر کے لیے پوجا کرتی ہیں، اُن سے اپنی محبت اور وفاداری کے عہدکی تجدید کرتی ہیں جب کہ شادی شدہ بہنیں اپنے میکے یا اپنے بھائیوں کے گھر مٹھائی لے کر جاتی ہیں۔
جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ ہزاروں سال پہلے ایک گھمسان کی جنگ جاری تھی کہ راکشس اندریوجی کو شکست دیتے دکھائی دینے لگے۔ راجہ اندر دیو جی گھبرا کر اپنی بیگم کے پاس گئے اور صلاح مشورہ کیا۔ رانی جی نے منتروں کی طاقت سے بھرا مقدس ریشمی دھاگہ اپنے شوہر راجہ اندر کی کلائی پر باندھ دیا اور اپنے خداؤں سے کامیابی کی دعا مانگی۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اسی مقدس دھاگے کی برکت سے راجہ اندر اس جنگ میں فتح یاب ہوئے۔ تب سے ہر شراون پورنیما (پورے چاند کی رات) پر یہ دھاگہ باندھنے کی رسم چلی آرہی ہے۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ اس جنگ میں زمین سے بھی کئی راجہ وہاں اندردیو جی کی مدد کو گئے۔ انہوں نے جب رکشا منتر اور رکشا بندھن کا ایسا کمال دیکھا اور ہر سال راکھی کا تہوار منانے کی شروعات کی۔
برضغیر پاک و ہند میں رکشا بندھن کے حوالے سے آتا ہے کہ یواڑ کی مہارانی کرم وتی کو جب اپنے علاقوں پر بہادر شاہ کے حملہ آور ہونے کی اطلاعات ملیں تو اس نے ہمایوں کو راکھی باندھ کر اپنی اور اپنے علاقے کی حفاظت کی درخواست کی۔ ہمایوں نے راکھی کی بھرپور لاج رکھی اور میواڑ جا کر رانی کرم وتی اور ان کے علاقے کی حفاظت کی۔ یوں ہمایوں کے بعد دوسرے مغل بادشاہ بھی رکشابندھن کا تہوار مناتے رہے۔ نتیجہ کے طو رپر رکشا بندھن آپس میں بھائی چارے کا نشان قرار پایا۔
بہادر شاہ ظفر کے عہد میں رکھشا بندھن کی ہفتہ بھر پہلے ہی تیاریاں شروع ہو جاتیں اور مختلف پکوان بنائے جاتے تھے ـ
رکشہ بندھن محبت اور ایک دوسرے کے لیے امن اور سلامتی کی دعا کرنے کا ایک خوبصورت تہوار ہے جو اقلیتی برادری جوش و خروش سے مناتی ہے ـ