کالم نگار:عبدالفتاح
جب بہادری اور شجاعت کا تصور ذہن میں آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خیال نہ آئے یہ ناممکن ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور شجاعت لازم و ملزوم ہیں، اسی صفت شجاعت کی وجہ سے آپ فاروق اعظم جیسے لقب سے ملقب ہوئے، جس وقت مسلمانوں کو کفار مکہ کی طرف سے ستایا جا رہا تھا اور ان پر ہر قسم کے مصائب کفار قریش کی جانب سے جاری تھے، تو آپ رضی اللہ عنہ بھی قریش مکہ کے ساتھ تھے، جب (نعوذبااللہ) حضور ﷺ کو راستے سے ہٹانے کے لیے مشاورت کی گئی اور منصوبہ بنایا گیا، تب بھی آپ ان لوگوں کے ساتھ تھے بلکہ جس نے اس پروگرام کو پورا کرنے کی حامی بھری وہ آپ ہی تھے؛لیکن دعاء رسول عربی ﷺ رب عزوجل کی بارگاہ میں قبولیت حاصل کرچکی تھی، (کہ اے اللہ! عمر یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما…)اور دین اسلام کے مٹانے کی کوشش کرنے والوں میں شامل ایک بڑا نام حضرت عمر رضی اللہ عنہ دین اسلام کی محافظین میں شامل ہوچکے تھے یوں کفار کی مجلسیں ماتم میں بدل گئیں، اور ڈرے سہمے کمزور مسلمانوں کو ایک سہارا مل گیا، اور نعرہ تکبیر بلند ہوا. نعرہ تکبیر……. الله اکبر
نماز کا وقت ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ اگر ہم حق پر ہیں تو چھپ کر عبادت کرنے کی کوئی وجہ نہیں، پھر مسلمانوں کو ساتھ لیا اور حرم میں جاکر کھلم کھلا ایک خدا کی عبادت بجا لائے.
آپ ہجرت کے ارادے سے نکلے تو کفار کو للکار کر فرمایا کہ جس نے اپنے بچے یتیم کروانے ہوں، جس نے اپنی بیوی بیوہ کروانی ہو، وہ آئے مجھے روک کر دکھائے؛ چنانچہ آپ نے ہجرت کی اور کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ آپ کو روک سکے…
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی الله عليه وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی اس وقت حضور اکرم صلی الله عليه وسلم کے پاس قریش کی چند عورتیں (امہات المومنین میں سے) بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور آں حضور ﷺ کی آواز سے بھی بلند آواز کے ساتھ آپ سے نفقہ میں زیادتی کا مطالبہ کر رہی تھیں، یوں ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ تمام خواتین کھڑی ہو کر پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ کھڑی ہوئیں آخر حضور ﷺ نے اجازت عطا فرمادی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے آپ ﷺ مسکرا رہے تھے عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ! اللہ آپ کو خوش رکھے آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پرہنسی آ رہی تھی جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں؛ لیکن آپ کی آواز سنتے ہی پردے کے پیچھے بھاگ گئیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ! ڈرنا تو انہیں آپ سے چاہیے تھا پھر انہوں نے (عورتوں سے کہا) اے اپنی جانوں کی دشمن! تم مجھ سے تو ڈرتی ہو اور حضور اکرم ﷺ سے نہیں ڈرتیں. عورتوں نے کہا کہ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں.حضور اکرم ﷺ کے مقابلے میں آپ کہیں زیادہ سخت ہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے اگر کبھی شیطان آپ کو کسی راستے پر چلتا دیکھ لیتا ہے تو اسے چھوڑ کر کسی اور راستے پر ہو لیتا ہے. (بخاری)
آپ رضی اللہ عنہ کا اتنا رعب و دبدبہ تھا کہ دشمن کو بھی سامنے سے وار کرنے کی جرأت نہ ہوئی، اور اس نے اپنے عزم کو پورا کرنے کے لیے ایک تو پشت کی جانب سے حملہ کیا، اور وہ بھی اس حال میں کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ اپنے خالق حقیقی سے محو گفتگو تھے، چنانچہ دشمن اپنے مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہوگیا، اور یوں امت مسلمہ ایک ایسے حکمران سے محروم ہو گئی جس کے رعب کی دھاک غیر مسلم قوتوں کو بھی چین سے سونے نہیں دیتی تھی، جس کی حکمرانی 22 لاکھ مربع میل پر قائم ہو چکی تھی، وہ ثانی خلیفہ راشد، مراد رسولﷺ، داماد بتول یکم محرم الحرام سنہ ٢٤ھ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے…
اسی باسعادت موت کے بارے میں مولانا محمد علی جوہر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے…
رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر ہے
یہ اس کی دین ہے جسے وہ دے
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]