مسئلہ قادیانیت ،اور جذبہ ہمدردی

فیصل مجید اعوان

گذشتہ چند روز سے وزیراعظم عمران خان صاحب کے میاں عاطف کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا رکن بنانے کے اعلان کے حوالے سے ملک پاکستان میں ایک افراتفری کا عجب سا ماحول بنا ہو اہے عمومی طور پر دو طبقے برسر میدان ہیں۔ایک تو واضح طور پر لبرل طبقہ ہے۔اور دوسرا روایت پسند مذہبی طبقہ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے اس موقع سے فائدہ اْٹھاتے ہوئے بعض ایسے لوگ بھی میدان میں اْتر کر بحث میں حصہ لے رہے ہیں جو کہ بظاہر بے حد نیوٹرل ،رائے کے مالک گردانے جاتے تھے میری مراد بعض دانشور اور معروف اخبارات اور چینلوں سے وابستہ صحافی ہیں ،جن میں جاوید چودھری ،کامران خان،بلال غوری،اور دیگر نام شامل ہیں۔ان کی رائے یہ ہے کہ چونکہ عاطف میاں ،قادیانی ہیں اور اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں لہذاانھیں بطور رکن قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ،بعض احباب اسی پر اضافہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ،یہ اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہے ،وغیرہ وغیرہ یہ موقع نہیں کہ ان کی باتیں تفصیل سے لکھی جائیں۔
میں ان تمام ہمدردی کے جذبات کی قدر کرتا ہوںلیکن اصل محور ومرکز POINT سمجھانا چاہتا ہوں جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ تمام صحافی برادری اور انسانی حقوق کے ٹھیکیدار ایسی بچگانہ باتیں لکھ کر ہمدردی کے جذبے سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ قادیانیت سے ہمارا اختلاف کس نوعیت کا ہے اسی بنیاد پر ساری بات ہے۔اختلافات کی عمومی طور پر دو قسمیں ہیں ایک اصولی یا اصل اور دوسری فروعی اختلافات ہوتے ہیں۔اصل اختلاف یہ ہے کہ ایک طرف ایک مسلمان ہے اور ایک جانب ایک دہریہ ہے۔اب یہ دونوں مذہبی اعتبار سے کبھی ایک نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے اصل ہی مختلف ہے مسلمان اللہ رسول ،کتاب کا ماننے والا جبکہ دہریہ سرے سے منکر ہے۔یا کوئی مسلمان اور ہندو کو ایک جگہ بٹھا کر کہے یہ دونوں ایک کیوں نہیں ہو سکتے جبکہ دونوں کے اعضا ،انسانی ایک جیسے ناک کان آنکھیں ایک جیسے یہ مذہباً ایک کیوں نہیں ہوسکتے تو جواب دیا جائیگا ان کی اصل میں اختلاف ہے ایک ایک ہی خدا کا قائل ہے اور دوسرا کئی خداؤں کو معبود مانتا ہے ،جب اختلاف اصل میں ہو تو تعاملاً ایک ہونا ممکن نہیں ہوا کرتا،اب دوسرے اختلاف فروعی کی طرف آتے ہیں فروعی اختلا ف کے متعلق بس اتنا جان لیں یہ دین کے اندر ترجیح اور غیر ترجیح یا اولی یا غیر اولی کااختلا ف ہوتا ہے مثلاً ایک امام پورے سر کے مسح کے قائل ہیں دوسرے چوتھائی سر کے نفس مسح دونوں کے ہاں موجود ہے ایسے تمام اختلافات فروعی ہوتے ہیں اور یہ باعث رحمت ہوا کرتے ہیں۔اب یہ سوال سامنے رکھئے گا اور فیصلہ خود کیجئے گا،قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں وہ کافر کیسے ہوسکتے ہیں وہ نماز بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں ،پھر انھیں الگ کیوں سمجھیں ،تو سادہ سا جواب ہے کہ اختلا ف فروع میں نہیں اصل میں ہے وہ اصل کو مختلف بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں لہذاان کے ناک کان آنکھیں ،ہمارے جیسی ہونا ان کی مساجد ونمازیں ہماری طرح پڑھنے کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اصل ہی مختلف ہے۔جب اصل مختلف ہے تو پورا نظام ہی مختلف ہے۔
ایک اہم شرعی اصول ہے کہ نبی کے بدلنے سے امت بدل جاتی ہے۔عیسیٰ ؑ کی امت عیسائی کہلاتی ہے ،موسیٰ ؑ کی امت یہودی ،محمدﷺ کی امت محمدی اب اگر وہ اصل کو ہی مختلف کرچکے ہیں تو انھوں نے خود کو مسلمان کہلانے لائق چھوڑا ہی نہیں ہے تو آپ کاہے مصر ہیں انھیں مسلمان کہلوانے کے۔یہی اس بات کو بھی سمجھ لیں کہ بھگوان داس اور دیگر غیر مسلموںکو ملنے والے عہدے کی بنیاد بھی یہ بات ہے کہ وہ اقلیت ہیں اورخود کو اقلیت تسلیم کرتے ہیں جس بنا پر ان کو عہدہ ملنا کسی درجے قابل قبول ہے کیونکہ وہ اختلاف اصلی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی حدود میں رہتے ہیں جبکہ یہ طبقہ ان تمام باتوں کے باوجود خود کو اقلیت تسلیم نہیں کرتا اور مسلمان ہی کہتا ہے اور بعض شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ان کی طرفداری میں یہی دلائل پیش کرتے ہیں جو باعث حیر ت ہیں۔
بعض صحافی دوستوں اور سنجیدہ حلقوں نے سرظفر اللہ کی مثال پیش کرتے ہوئے خود کو پھنے خان ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قائدا عظم محمد علی جناح نے انھیں کابینہ کا حصہ بنایا تھا تو اب عاطف میاں سے کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔تو میرے سادے سے صحافی بھائیو بال کی کھال اتارنے کے ماہر دوستو !میں حیرا ن ہوں کے کیا اس شوشے کا جواب آپ کے پاس نہیں ہے۔تو سن لیجئے قائد اعظم کا ظفر اللہ کو کابینہ میں شامل کرنا دو وجہ سے تھا ایک تو وقت کے وائسرے کی سفارش کے نیا ملک ہے آپ کو ابتدا میں مسائل پیش آسکتے ہیں لہذا اسے اپنے ساتھ شامل کرلیں۔دوسری وجہ قائد کے دور میں اس ملک کا آئین مرتب ومدون نہیں ہوا تھا اس لئے یہ ان کا ذاتی یا بامر مجبوری کا فیصلہ کہا جاسکتا ہے 1973کے آئین کے بعد یہ اعتراض خود ختم ہو جاتا ہے کیونکہ اسی آئین کے جس کی پاسداری کی ہم اور آپ قسمیں کھاتے ہیں اسی نے انھیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے۔لہذاجن دنوں آئین نہیں بنا تھا ان دنوں کے فیصلے آئین بننے کے بعد بطور دلیل پیش کرنا بڑی صحافتی کمزوری کی علامت ہے۔ہمدردی کے جذبے کو جگا کے رکھئیے اور تاریخ کے دبیز پردے پلٹ کر دیکھیں جس قائد اعظم کی کابینہ میں ظفر اللہ قادیا نی کے ہونے کی مثال دے کر ہمدردی حاصل کی جاتی ہے یہی ظفر اللہ جب قائد اعظم فوت ہوئے اور ان کا جنازہ پڑھا جانے لگا مولانا شبیر احمد عثمانی ? جنازے کی امامت کے لئے تشریف لائے تو اسی ظفر اللہ نے قائد کا جنازہ یہ کہ کر پڑھنے سے انکار کردیا کے یہ مسلمان ہے ،اور الگ دور جا کر کھڑا ہو گیا۔اس لئے ہمدردی کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں میرے اور آپ کے محسن عظیم محمد عربی ﷺ کے دل پے کیا گزرتی ہوگی بدبختی کے باب میںسب سے بڑھ کراہم یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کوبھول جائے اورپھراسی میںارتقائی منازل طے کرتاہواجانوروںسے بھی بدترہوجاتاہے۔حضرات انبیاء علیہم السلام اس کائنات کی وہ مقدس ہستیاںہیںکہ جن کواللہ تعالیٰ نے اس دنیامیںمبعوث ہی اسی لئے فرمایاکہ ان سے اس کائنات کواورکائنات میںرہنے بسنے والوںکومستفیدکرنامقصودتھا۔اورسابقہ زمانہ سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جولوگ حضرات انبیاء علیہم السلام کی اذیت کاسبب بنے انھیںقرآن کریم نے کہیںتوفرمایا’’اذانبعث اشقاھا‘‘ کہیںفرمایا فاخذتھم الصیحۃ فرمایا۔بہر حال ایسے لوگوںسے بعدمیںآنے والوںکوعبرت حاصل کرنی چاہئے اورایسے کام کرنے سے بعض رہناچاہئے لیکن بدبختی اورشقاوت اندھیروںمیںڈوبے ہوئے یہ لوگ سابقہ اقوام تاریخ سے سبق لینے کے بجائے اسی گہری کھائی میںجاگرتے ہیںکہ ان کانام ونشان مٹ جاتاہے۔حضورنبی کریم ﷺکے حقوق کاتحفظ امت کی اہم ذمہ داریوںاورایمان کے بنیادی تقاضوںمیںہے،اس دورمیںاسلام دشمن ذرائع ابلاغ کاسب سے بڑاہدف حضورنبی ﷺکی ذات گرامی ہیں،اسی طرح مغرب کے کاسہ لیس مسلم حکمرانوں نے بھی انھیںمسلم ممالک میںکھلی چھٹی دے رکھی ہے،ان حالات سے پیدا ہونے والی کیفیات اور جذبات جب عروج پے پہنچے تو اپنے ساتھ سب کچھ بہاکے لے جائیں گے۔حکومت وقت کو چاہیے وہ ہوش کے ناخن لے اور یہ طے کر لے کہ ریاست مدینہ کا نام لے لے کر جب کام مسیلمہ کذاب والے شروع کر دئیے تو اللہ بڑا بے نیا ز ہے اس کی نیام میں اب بھی اس کے محبوب ﷺکی ناموس کے کئی ”سیف اللہ ”و صلاح الدین ،نورالدین زنگی ” اشارہ ابرو پے کٹ مرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔اس لئے ہمدردی ،ہمدردی والی جگہ کی جانی چاہیے۔

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *