حیات عبداللہ
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]
وہ ایک ایسے شہر آشوب سے تعلق رکھتی ہے، جہاں آہٹوں پر بھی وحشتوں کا گمان ہوتا ہے، وہ ایک ایسے قریہ کرب کی دوشیزہ ہے، جہاں یادوں کے طاقچے میں بکھرے آنسوﺅں کو سمیٹنا بڑا ہی دشوار ہے، ایک ایسا قہر آلود شہر جہاں ہر روز درد پھوٹ پڑتے ہیں، جہاں روز ہی جسموں اور عزتوں کے جنازے اٹھتے ہیں، ایک ایسا دیار کسک، جہاں عیار و مکار بھارتی فوج دل فگار ظلم و سربریت کے لئے ہمہ وقت تیار ہے، جہاں دن پتھریلے اور راتیں کنکریلی ہو چکی ہیں، جہاں ہر چہرہ غموں سے سلگ رہا ہے۔
آنچ دیتے ہوئے انگارے تو دیکھے ہوں گے
کبھی دیکھا ہے کوئی غم سے سلگتا چہرہ؟
سو پور کی اس دلہن کی منتظر آنکھوں میں کتنے زخم اتر آئے ہوں گے، اس کے احساسات میں درد و غم کا کس قدر ہجوم لگ گیا ہو گا، اس کے مہندی لگے ہاتھوں کی ساری تمکنت اور تیز آسمانی رنگ کے کپڑوں کا سارا بانکپن نیست و نابود ہو گیا ہو گا، دلہن بنی وہ دھان پان سی چمکیلی آنکھیں تو اپنے دولہے کی راہ تک رہی تھیں مگر زندگی کے سب سے حسین لمحات میں اس کے بھائی کی موت کی خبر نے کس طرح اس کے جذبات کو نوچ کھایا ہو گا؟ لوگو! دیکھ لو دل کس طرح ویران ہوتے ہیں، سپنے کس طرح اجڑ جاتے ہیں اور ارمان کس طرح کھنڈر بنا دیئے جاتے ہیں، یہ سو پور کی دلہن سے بہتر کون جان سکتا ہے؟ کیا وہ اپنے دکھ ہواﺅں کو سناتی ہیں؟ کیا وہ دیوار و در کو اپنا ہم راز بنا کر آنسو بہاتی ہیں؟ کیا وہ اپنے پچھڑے ہوئے پیاروں کو بھلانے کے لئے بلبلوں اور قمریوں کو قصہ غم سناتی ہیں؟
سنو ہم بیٹھ کر تنہا کسی ویران گوشے میں
ہوا کو دکھ سنائیں گے تجھے ہم بھول جائیں گے
مگر یہ سب جسارتیں کرنے سے بھلا کون بھول پاتا ہے؟ یہ ریاضتیں تو خود کو مصروف رکھنے کا بہانہ ہوتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا ایک بھی تو گھر ایسا نہیں جس کے چراغ شب بجھا نہ دیئے گئے ہوں، جن کی آسودگیوں کو ادھیڑ نہ دیا گیا ہو۔ پانچ بیٹیوں کے ایک باپ حکیم الدین سلطان کا تعلق بھی سو پور سے تھا، اسے بھی گزشتہ ہفتے گولیوں سے چھلنی کر کے شہید کر دیا گیا۔ سرینگر میں اشفاق وانی نامی نوجوان کو بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالر عبدالغنی کو گولیوں سے بھون دیا گیا، حسن و جمال کا بے مثال استعارہ بنی وادی کشمیر کے چپے چپے پر لہو رنگ داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ مقبوضہ وادی میں گھریال جنگل ہے، گزشتہ ہفتے ہی وہاں گھمسان کا رن پڑا، بھارتی فوج نے ایک شہید کشمیری کی لاش کو زنجیر سے باندھ کر گھسیٹا، لاش کی حرمت اور تقدس کے پامال ہونے پر اردگرد کھڑے بھارتی فوجی مسکراتے رہے، انسانیت نام کا کوئی بھی جذبہ بھارتی فورسز کے دل سے کب کا غائب ہو چکا، بھارتی ظلم کو طویل عرصہ ہو چکا۔ گزشتہ سال بھی میجر لیتل گوگوئی نے مظاہرین کے پتھراﺅ سے بچنے کیلئے ایک کشمیری نوجوان فاروق احمد ڈار کو اپنی جیپ کے آگے باندھ کر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ 1989ءسے اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو چکے، گیارہ ہزار سے زائد خواتین کی عصمت دری کی جا چکی جن میں آٹھ سالہ ننھی آصفہ بانو بھی شامل ہے۔ سینکڑوں کشمیریوں کو بینائی سے محروم کر دیا گیا مگر اپنی جان ہتھیلی پر اٹھائے اہل کشمیر اعلیٰ و ارفع ایمان کی لذت سے یوں آشنا ہیں کہ جنوں خیز قربانیوں کی یہ داستانیں ان کے جذبہ حریت کو دوچند کئے جا رہی ہیں۔
اداس راہیں، شکستہ آہیں، مرا مقدر، مرا اثاثہ
طویل کا وش پس سفر ہے بہت ہی مشکل مرا خلاصہ
سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج ہر طرح کی کوہ پیمائی اور ہنگامہ آرائی کے باوجود آزادی کی آب و تاب اور رعنائی کو گدلا نہیں پائی، کشمیری عورتوں کی آبروریزی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والی بھارتی فوج بدسگام میں ایک بارات کو روک کر دلہن کو 48 گھنٹوں تک زیادتی کا نشانہ بھی بنا چکی، مگر آج تک اہل کشمیر کے خیالات کی ریاضت سے آزادی کی نفاست کو ذرا نہ ماند کر پائی۔ کشمیریوں کے جسم و جاں پر کتنے سانحہ گزر چکے، ان کی زندگی کے سوگ مستقل روگ بنا دیئے گئے، مگر سحر دیکھنے کے منتظر کتنے چہرے آسودہ خاک ہو گئے، انسانیت کی ہر حد کو پامال کرنے والی بھارتی فورسز اس سال بھی کرفیو کے باوجود کشمیری نوجوانوں کو پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر پاکستانی پرچم لہرانے سے نہ روک سکیں، وہ پاکستان کا جھنڈا لہرا لہرا کر پاکستان کا قومی ترانہ پڑھتے رہے۔
اپنے دولہے کی منتظر آنکھوں میں اچانک بھائی کی لاش کا انتظار گھونپ دیا جائے تو نازک اندام وجود کس قدر سناٹے میں آ گیا ہو گا۔ اذیت کی شدت کس قدر تلخیوں میں ڈھل گئی ہو گی۔ انتظار کے پت جھڑ موسموں نے کس طرح ایک دلہن کی آنکھوں میں مستقل ٹھکانہ بنا لیا ہو گا، اس کے تصور ہی سے جسم و جاں کانپ اٹھے ہیں۔ نحیف و ناتواں مگر عزم و ہمت کی کوہ گراں ان دلہنوں کی عظمت اور رفعت کو بھی سلام جو پاکستان کی محبت میں ہر دکھ اور ہر درد پر ضبط اوڑھ لیتی ہیں، صبر پہن لیتی ہیں۔
ضبط اوڑھا ہے، صبر پہنا ہے
ہم پہ گزری ہے رات پتھر کی