طے شدہ پریس ریلیز

ڈی بریفنگ
شمشاد مانگٹ
پاکستان میں کئی ’’طے شدہ‘‘ معاملات کی طرح’’طے شدہ‘‘ پریس ریلیز کا کلچر بھی عام ہے جیسا کہ کسی سیاستدان کی وفات ہو یا پھر کوئی نامور یا ’’نیم نامور‘‘ صحافی کی وفات ہو جائے تو وزیراعظم سیکرٹریٹ یا ایوان صدر سے فوری طو رپر اظہار افسوس کی ایک طے شدہ پریس ریلیز میڈیا ڈیپارٹمنٹ جاری کردیتا ہے اسی طرح وزیراعظم اور صدر مملکت کو پتہ بھی نہیں ہوتا لیکن انکا میڈیا ڈیپارٹمنٹ انکے لئے ’’غائبانہ‘‘ ثواب دارین کا اہتمام کر دیتا ہے۔
اسی طرح دہشتگردی کے واقعات ہوں یا ریلوں اور سڑکوں کے حادثات ہوں، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور ایوان صدر کا میڈیا ڈیپارٹمنٹ طے شدہ پریس ریلیز میں معمولی تبدیلیاں کر کے فوری طور پر جاری کر دیتا ہے اور اس طرح صدر اور وزیراعظم نہ جانتے ہوئے بھی قوم کے دکھ اور غم میں برابر کے شریک قرار دے دیئے جاتے ہیں۔
وزیراعظم سیکرٹریٹ اور ایوان صدر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز ہمارے ہاں کئی طبقات میں ’’سٹیٹس کو‘‘ کی علامت بھی ہے۔ کئی با اثر اور سرمائے دار لوگوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے معاشرے میں اپنا ’’مقام بلند‘‘ رکھنے کے لئے اس طے شدہ پریس ریلیز کا سہارا لیا۔ کیونکہ اظہار افسوس کی جاری کی گئی پریس ریلیز ایک ایسی خبر ہے جس کو صد ریا وزیراعظم واپس بھی نہیں لے سکتے۔ عوام اظہار افسوس کی ایسی خبروں کو فوری طور پر اس لئے قبول کر لیتے ہیں کیونکہ انکا شعور اس بات کو قبول کر لیتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ مرنے والے یا اس کے لواحقین کے صدر یا وزیراعظم سے قریبی تعلقات ہیں چنانچہ وزیراعظم آفس اور ایوان صدر نے اظہار افسوس کر کے اس تعلق کو اگلی نسل تک نبھایا ہے۔
ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونیوالی ’’طے شدہ ‘‘ پریس ریلیز بالکل اسی طرح ہیں جیسے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس کے دوران گیٹ پر موجود سی ڈی اے اہلکار صرف اراکین پارلیمنٹ اور وزراء کے ڈرائیوروں کو گاڑی لیکر گیٹ پر پہنچنے کا اعلان کرنے کا پابند ہے لیکن وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کا ’’تعاقب ‘‘ کر کے پارلیمنٹ تک پہنچنے والے کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اعلان کرنیوالے سی ڈی اے اہلکار کو ’’ٹپ‘‘ دیکر ملک کے معتبر ترین ادارے کے سپیکر سے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ اپنے نام کا اعلان بھی کروا دیتے ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کے پاس اسکا برا منانے کے لئے شاید وقت ہی نہیں یا پھر اس باریک واردات کی انہیں سمجھ ہی نہیں آتی۔



جیسا کہ بات ہو رہی تھی کہ جاری شدہ پریس ریلیزوں کے حوالے سے اسی طرح ابوزیراعظم آفس اور ایوان صدر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نیب نے بھی اب طے شدہ پریس ریلیز کو مستقل طور پر اپنی ’’کارکردگی‘‘ کا حصہ بنا لیا ہے۔ چونکہ چیئر مین نیب کسی حادثے یا کسی سیاستدان کی وفات پر اظہار افسوس کے لئے پریس ریلیز جاری کرنے کے مجاز نہیں ہیں اس لئے نیب کا میڈیا سیل ایک طے شدہ پریس ریلیز تقریباً ہر ہفتے جاری کرتا ہے جس میں نیب کی کارکردگی اسکی ’’پیدائش‘‘ سے لیکر ’’بڑھاپے‘‘ تک شامل ہوتی ہے۔
گزشتہ روز ایک بار پھر نیب نے پرانی پریس ریلیز میں نئی ترامیم کر کے کرپشن کے خاتمے کا ’’بظاہر‘‘ عزم کیا ہے ۔ تازہ مگر پرانی پریس ریلیز میں 476افراد کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا ہے 239افراد کیخلاف انکوائریوں کا بھی انکشاف کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2ارب 41کروڑ روپے کرپٹ افراد سے واپس لیکر قومی خزانے میں جمع کروائے گئے ہیں۔
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ نیب کے ہی ایک سابق چیئر مین نے سپریم کورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے اگر اس دعوے کو درست مان لیا جائے بلکہ یہ دعویٰ کسی حد تک درست ہے کیونکہ کرپشن کا نیٹ ورک اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ اب تو پاکستان میں یہ 24/7کام کرتا ہے لہذا کرپشن کا حجم اس سے دو گنا ہو سکتا ہے۔
لیکن نیب جو کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے بنایا گیا تھا درحقیقت کرپٹ افراد کے آلہ کار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے ۔ جہاں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہو وہاں 11ماہ میں دو ارب روپے کی برآمدگی باعث شرم ہے۔
نیب کے اپنے دفاتر میں 435افراد کیخلاف کرپشن کے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ پڑی ہوئی فائلیں چیئر مین نیب اور انکی ٹیم کا منہ چڑا رہی ہیں۔ ان 435افراد نے آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں اور نیب انکے خلاف تحقیقات میں بے بس ہے۔ ان کمپنیوں میں سیف اللہ خاندان کی 38کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال بطور چیئر مین نیب عہدے کا حلف اٹھاتے ہی اور بعد میں بھی کئی بار کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ ظاہر کر چکے ہیں لیکن معاملات اس کے برعکس ہیں اور نیب کے اپنے اہلکار کرپشن کے الزامات میں ’’گوڈے گوڈے‘‘دھنسے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نیب اپنے قیام سے لیکر آج تک سیاستدانوں کے بازو مروڑنے کے سوا کچھ نہیں کر سکا۔ البتہ لاوارث قسم کے سرکاری عہدیداروں اور سیاستدانوں پر نیب کے اہلکار یا تو قہر بن کر ٹوٹتے دیکھے گئے اور یا پھر بارگیننگ نام کی ایک’’پُلی‘‘ بنا کر ان تمام افراد کو اس پر سے گزار دیا گیا۔ نیب کے در و دیوار نیب کے اپنے اہلکاروں کی کرپشن کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے نیب کے پاس ایک کئی سالوں پرانی ’’طے شدہ‘‘ پریس ریلیز موجود ہے اور یہ پریس ریلیز ہر چیئر مین نیب کی پسندیدہ ترین پریس ریلیز ہوتی ہے اور ہر چیئر مین یہ بھی سمجھتا ہے کہ یہ اسکی کارکردگی ہے حالانکہ یہ نیب کی عمر بھر کی کارکردگی ہوتی ہے۔ باقی سرکاری ادارے بھی اب اپنی اپنی طے شدہ پریس ریلیز کا خاکہ تیار کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ آنیوالا دور طے شدہ پریس ریلیز کا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *