از قلم :شکیل احمد ظفر
وہ غمزدہ دل ،اترے ہوئے چہرے اور پرنم آنکھوں کے ساتھ اپنے والد ماجد کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا ۔اس کے والد کی طبیعت کافی دنوں سے خراب چل رہی تھی ۔اب تو ان کا مرض شدت اختیار کرگیا تھا ۔کوئی دوا بھی کارگر ثابت نہیں ہورہی تھی ۔یہ وہاں بیٹھا اپنی بے بسی پہ آنسو بہارہا تھا کہ اس کا ہمدرد ،مشفق ،سمجھدار ،سلیقہ مند اور مدبر پدر محترم بیماری سے نڈھال ہے اور یہ کچھ نہیں کر پارہا تھا۔کچھ لمحات کے سکوت کے بعد اس کے والد مولوی عبد الحق صاحب فارسی کا یہ شعر پڑھتے ہیں ۔
چوں قضا آید طبیب ابلہ شود
روغن بادام خشکی مے کند
جب دنیا سے جانے کا وقت آجاتا ہے تو ڈاکٹر اور حکیم کو بھی کچھ نہیں سوجھتا بلکہ دوائی بھی الٹے کرشمے دکھانے لگتی ہے ۔)اور فرمانے لگے کہ میرے لخت جگر …!! میرے بیٹے …!! میری ان تین نصیحتوں کو پلے باندھ لو ..ان پر عمل ضرور کرنا ۔نمبر ایک :
پڑھائی ہر گز نہ چھوڑنا ۔پڑھتے رہنا اور آگے بڑھتے رہنا ۔گھر کے ناگفتہ بہ حالات کے پیش نظر احباب و متعلقین ترکِ تعلیم پر مجبور کریں گے لیکن آپ نے ہر گز تعلیم کو خیر آباد نہیں کہنا۔
نمبر دو:کسی کی گالی کا جواب گالی میں مت دینا ۔اس کے کتا ،بلا کہہ دینے سے آپ کتے نہیں بن جائیں گے ۔کہنے والے کے جھوٹے ہونے میں کیا شک ہے کہ وہ خلافِ واقع بات کررہا ہے ۔
نمبر تین : قرض کبھی نہ لینا ۔ہاں مگر یہ کہ کوئی شدید مجبوری ہو تو وہ الگ بات ہے ۔بس حتی الوسع اس مصیبت سے بچنے کی کوشش کرنا
سعادت مند بیٹے نے ہمہ تن گوش اپنے مشفق اور مخلص والد کی علم وحکمت سے لبریز نصیحتیں سماعت کیں اور صدقِ دل سے عمل کی یقین دہانی کرائی ۔پھر چند لمحات کے بعد اس کے والد نے جان، جانِ
آفریں کے سپرد کرکے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ۔(اللہ اس عظیم شخص کی قبر کو روشن فرمائے۔
یہ ہمارے استاد گرامی ،شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسم صاحب کے والد بزرگوار تھے ۔اور انہوں نے آب زر سے تحریر کے قابل یہ پند ونصائح اپنے اسی ہونہار فرزند کو کیں تھی ۔ آئیے ….آخری نصیحت پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں ۔
قرض …پیار ومحبت کی قینچی ہے ۔اس کی وجہ سے محبتیں ،نفرتوں کا روپ دھار لیتی ہیں ۔بات بات پہ جھگڑے اور فسادات جنم لیتے ہیں ۔ قرض جیسی بیماری سے نجات پانا ناممکن سا ہوجاتا ہے ۔اس سے نفع کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔قرض لینا پریشانیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
یہ ضرب المثل عالم اک کہہ گیاہے …
لیا مول غم ،قرض جس نے لیا ہے
خوشحال معیشت کا ایک بہترین فارمولا اور نسخہ کیمیا ” *آمدنی* *بڑھا اور خرچ گھٹا “* کا ہے۔سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ “الاِقتصاد فی النفقِ نِصف المعِیش “کہ خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے ۔ اگر اس فارمولے پر عمل کرلیا جائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ قرض لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔لیکن …ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم آمدنی اور خرچ کرنے کا توازن برابر نہیں رکھتے …جس کی وجہ سے ہمارا پورا ملک قرض جیسی بلائے ناگہانی کا شکار ہے ۔ہم مقروض قوم ہیں ،غلام اور مملوک ہیں ۔اسی لئے سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتے ،اپنے مطالبات نہیں منواسکتے ۔عزت کی نہیں ،ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]