تحریر:شاکر فاروقی...
پاکستان ذہین لوگوں کا وطن ہے، اس بات کا اقرار دوستوں کے ساتھ ساتھ ہمارے دشمن کو بھی ہے۔ یہاں
کی ذہانت میں دنیا کی اکثر اقوام کا حصہ ہے۔ یہاں آریاؤں کا دبدبہ، ترکوں کی بہادری، پٹھانوں کی غیرت، عربوں کی جفاکشی، منگولوں کا زورِ بازو، چینیوں کی لگن، یونانیوں کا حُسنِ تدبیر اور اہل فارس کی حکمت موجود ہے۔ ماہرین کہتے ہیں جب دو مختلف نسل کے افراد آپس میں تعلقات بناتے ہیں، رشتہ داریاں قائم کرتے ہیں تو ان کی اولاد ماں باپ دونوں جانب کی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ برصغیر ایسا خطہ ہے جہاں دنیا کی اکثر اقوام آ کر آباد ہوئیں۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ یہاں کالے، گورے، زرد، گندمی، لمبے، ٹھگنے، چپٹی ناک، ستواں ناک، نیلی آنکھوں، کالی آنکھوں اور گھنگریالے و سیدھے بالوں والے، غرض ہر نسل سے مشابہت رکھنے والے افراد مل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ ذہانت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

کسی زمانہ میں برصغیر کے باسیوں کے فن اور ہنر کا چرچا چہار دانگ عالم میں تھا۔ اس خطہ زرخیز سے شاہ ولی اللہ جیسے محدثین، ملاجیون جیسے فقیہ، تان سین جیسے موسیقار، استاد احمد لاہوری(معمار تاج محل) جیسے انجینئر، مجدد الف ثانی جیسے صوفیاء کرام اٹھے۔ لوک کہانیوں کی مشہور کتاب ”کلیلہ و دمنہ” درحقیقت ہندوستان میں لکھی گئی۔ دنیا کی خوب صورت ترین عمارت ”تاج محل” خطہ برصغیر میں واقع ہے۔ لاکھوں انسانوں کو جنت کی راہ دکھانے والا معین الدین چشتی اسی سر زمین میں دفن ہے۔ دنیا کے چوتھے بڑے مذہب کا بانی گوتم بدھ اسی سلطنت میں افکار پھیلا سکا۔ دنیا کا باریک ترین کپڑا تیار کرنے کا سہرا بنگالیوں کے سر ہے۔ دولت کی فراوانی اس خطہ کو سونے کی چڑیا بنا دیتی تھی۔ یہ ٹیلنٹ ہمیں اب بھی مایوس نہیں کرتا۔ اب بھی آپ کو شاعری میں علامہ اقبال، قیادت میں محمد علی جناح، خطابت میں عطاء اللہ شاہ بخاری، تقویٰ میں محمد اشرف علی تھانوی، طب میں حکیم اجمل خان و حکیم محمد سعید، فنونِ لطیفہ میں صادقین، سائنس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، کمپیوٹر انجینئرنگ میں ارفع کریم رندھاوا اور بہادری میں عزیز بھٹی شہید کا ثانی نہیں ملتا۔ دنیا ابوالکلام آزاد اور ابوالحسن علی ندوی کی زبان دانی سے دنگ ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور شیخ احمد دیدات سے کیے گئے مناظروں کا جواب دینے سے دنیائے عیسائیت آج تک قاصر ہے۔ فضائیہ کی دنیا میں ایم ایم عالم اور ائر مارشل اصغر خان کا جواب نہیں۔ بلوچستان کے قالین، چنیوٹ کے فرنیچر اور وادی کیلاش کی تہذیب کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ ہم لوگ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ ہیں۔پوری دنیا سے دین پڑھنے کے لیے مسلمان برصغیر کے دینی مدارس کا رُخ کرتے ہیں۔
صد افسوس کہ نسلِ جدید انٹرنیٹ اور گلیمر کی ایسی عادی ہوئی ہے، کہ اپنا ماضی، اکابرین کی روایات اور اپنے تہذیب و تمدن سے ناتا توڑ بیٹھی ہے۔ اگر ترقی معکوس کی یہی صورت حال رہی تو شاید کچھ ہی عرصے میں اس کے سوتے خشک ہو جائیں۔ اپنی کتابِ زیست کا ماضی سے ملحق ایک ایک ورق پھاڑ دے گی۔ اگر انھیں سنبھالا نہ گیا تو یہاں علم و فضل کی بجائے نان و نفقہ کی مانگ بڑھ جائے گی۔ یہاں کا نوجوان اپنی قوم کی خدمت اور امت مسلمہ کی سیادت کی بجائے خواہش نفسانیہ کو ترجیح دے گا۔ تعلیمی اداروں میں خاک اُڑے گی اور ذہنوں کی زمین بنجر ہو کر لق و دق صحرا کا منظر پیش کرے گی۔ تن آور جسم خالی کھوکھے رہ جائیں گے جن کا جسم تو اپنا ہوگا لیکن فکر و سوچ غیروں کی ہوگی۔ روز کا مشاہدہ اور بڑوں کا تجربہ کم از کم یہی کہتا ہے۔ لیکن اس صورت حال کی ذمہ داری سراسر غیروں پر ڈالنا درست نہیں، کیوں کہ اس میں اُن کی عیاری کے ساتھ ساتھ اپنوں کی سادگی بھی شامل ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا اہلِ علم و راہ نما طبقہ اپنی ذمہ داریاں پورے طور سے نبھانے میں ناکام رہا ہے۔ وہ نئی نسل کو یہ سمجھانے سے قاصر رہا ہے کہ تمہارے سر پر کون کون سی ذمہ داریاں ہیں۔ ہمارا نوجوان اپنے مستقبل سے لاعلم ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے، سارا دن سوشل میڈیا پر انگوٹھا گھما لینے سے علم میں اضافہ ہو جاتا ہے، وہ ڈگری اس لیے لیتا ہے تاکہ چار ٹکے کما کر اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھر سکے ۔ وہ سیاست اس لیے کرتا ہے کہ اپنے علاقے کی کچی گلیوں کو کارپٹ سڑک میں اور ناپختہ نالیوں کو پکے نالوں میں تبدیل کروا سکے۔ وہ اگر مذہب پر عمل کرتا ہے تو مطمح نظر خوشنودی رب نہیں، بلکہ نمود و ریا یا خواہش جنت ہوتی ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد دو وقت کا کھانا، سفر کے لیے اچھی سواری اور رہنے کے لیے عالی شان گھر ہے۔ اُسے اس جہان فانی میں آنے کا مقصد تک معلوم نہیں۔ وہ اس بات سے لاعلم ہے کہ اسی کے اندر کوئی غزالی، رومی، سعدی، ابن الہیثم، جابر بن حيان، الخوارزمي، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی یا ابوالقاسم الزہراوی چھپا ہے۔ جسے امت کی رہبری کا فریضہ سونپا گیا ہے۔
کچھ اہلِ دل جب یہ سب کچھ دیکھتے تو دِل مسوس کر رہ جاتے۔ انھیں سمجھ نہیں آتی تھی، وہ کیا کریں؟ دور دور تک اس سے عہدہ برآ ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ اس ساری صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ نے چند ناتجربہ کار نوجوانوں کو کھڑا کیا۔ (کہ وہ اپنا کام لینے کے لئے عمر، علم، نیکی اور تجربہ کو نہیں دیکھتا، وہ کعبے کے لیے صنم خانے سے پاسباں چُن لیتا ہے۔) یہ سرپھرے نوجوان چھ اپریل 2018 کو سر جوڑ کر بیٹھے۔ اکابرین کی سرپرستی میں فیصلہ یہ ہوا کہ نسلِ نو کا رُخ مثبت کاموں کی جانب موڑ دیا جائے۔ وہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔ انہیں ٹوکنے کی بجائے یہ سمجھایا جائے کہ ”تم سب کچھ کرو، لیکن پورے دن میں ایک گھڑی اپنے اور مصائب میں گھری امت کے لیے بھی وقف کرو۔ ” الحمدللہ اس کا بہت اچھا رسپانس ملا کہ ابھی اس خاکستر میںھ بہت سی چنگاریاں موجود ہیں۔ ان نوجوانوں نے اسلامک رائٹرز موومنٹ پاکستان کے پلیٹ فارم پر لوگوں کو صدا دینا شروع کی۔ حالات کے تقاضے کے مطابق سوشل میڈیا کو اپنا مرکز بنایا، اچھا کام کرنے اور درد دل رکھنے والے افراد کو ایک جگہ جمع کرنا شروع کیا۔ اللہ تعالٰی کی مدد سے بہت جلد ایک جماعت تیار ہو گئی۔ جس نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا شروع کر دیا۔ فیس بُک اور واٹس ایپ کے حیا باختہ ماحول میں قلم کی روشنی بکھیرنی شروع کر دی۔ اخلاق و افکار کی تطہیر بہت جلد چوکھا رنگ لے آئی۔ توقع سے زیادہ پذیرائی ملی اور جوں جوں قافلہ چلتا گیا کارواں بنتا گیا۔
کہتے ہیں ”جو قوم تلوار سے فتح نہ ہو سکے، اُسے قلم کے ذریعے فتح کرو۔” لہٰذا سیفِ قلم اٹھائے جب دلوں کی زمین مسخر کرنے نکلے تو نہ صرف وطنِ عزیز پاکستان بلکہ دیگر ممالک مثلاً چائنا اور ہندوستان سے بھی اہل دل شامل ہوتے گئے۔ ابھی اس تنظیم کو بنے چار ماہ کا قلیل عرصہ ہوا ہے، کہ جزائر غرب الہند سے لے کر جنوبی افریقہ کے ساحلوں تک لوگ اس کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں۔ نوجوان ابھرتے لکھاری، جنہیں اپنی تحریر شائع کروانے کے لیے در در بھٹکنا پڑتا تھا، اب ایک کلک کے ذریعے پوری دنیا تک اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ وہ جنہیں قلم پکڑنا مشکل معلوم ہوتا تھا، مخلص قائدین کی سرپرستی میں قلم کے شہسوار بن گئے۔ ان کی املاء درست کی گئی، لکھنے کے گُر بتائے گئے، قدم قدم پر ان کی راہ نمائی کی گئی۔ ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کے مضامین اندرون و بیرون ملک کی ویب سائٹس، اخبارات اور رسائل میں شائع کروائے گئے۔ جس سے الحمدللہ نوجوان لکھاریوں کا اعتماد اسلامک رائٹرز موومنٹ پر بڑھا۔ نتیجتاً ان گم نام گودڑیوں میں پوشیدہ بڑے قیمتی لعل ملے۔ جنہیں مزید چمکانے اور پالش کرنے کی کوشش جاری ہے۔
اس قلیل عرصہ میں تین سو کے قریب مضامین، اسلامک رائٹرز موومنٹ کے ذریعے اخبارات و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے حوالے سے ایک انعامی مقابلہ کروایا گیا، جس میں تین ممالک سے مضامین شامل ہوئے۔ جن میں شرائط پر پورا اترنے والے ساٹھ کے قریب مضامین کو مقابلہ کا حصہ بنایا گیا فللہ الحمد۔ اس مقابلے کے ونرز کے لیے ایک اعزازی تقریب ان شاء اللہ العزیز 6 ستمبر 2018 بروز جمعرات گوجرانوالہ میں منعقد کی جا رہی ہے. جس میں تقسيم انعامات کے علاوہ ممبران کی ملاقات بڑے، مشہور اور ملک کے نام ور لکھاریوں سے کروائی جائے گی۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اپنے خصوصی فضل و کرم سے ہمارے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے۔آمین
بہت ناسپاسی ہوگی اگر اس بات کا کریڈٹ نباضِ زمانہ، شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب کو نہ دیا جائے، جن کی متجددانہ سوچ اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت نے اس تنظیم کو پھلنے پھولنے میں مدد دی۔ نیز شیخ العاملین جناب پیر سید مزمل حسین نقشبندی مدظلہ کی ہمہ جہت توجہ اور مخلصانہ دعائیں، کہ جو ہر مشکل گھڑی میں سہارا بنی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ استاذ محترم جناب عبدالقدوس محمدی صاحب حفظہ اللہ کی شفقت و محبت اور جناب حفیظ چودھری صاحب کی لگن اور درد نے اس تنظیم کو چار ماہ کی قلیل مدت میں پوری دنیا میں متعارف کرا دیا ہے۔ امید ہے کہ دیے سے دیا جلتا جائے گا اور دوستوں کا خلوص کچھ کر دکھائے گا۔ اللہ کرے یہ مشعل تا قیامت روشن رہے اور اپنے نور سے ایک عالَم کو مستفید کرے۔ آمین ثم آمین
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]