ڈی بریفنگ //شمشاد مانگٹ
ڈونکی راجہ نامی فلم بظاہر بچوں کے لئے بنائی گئی ہے لیکن اس کے سائیڈ افیکٹ ملک کے طول و عرض میں محسوس کئے جا رہے ہیں چونکہ راقم نے فلم نہیں دیکھی اس لئے اس فلم کے اچھا یا برا ہونے پر تبصرہ ممکن نہیں ہے البتہ اس فلم کے نام کا چرچا ڈنکے کی چوٹ پر کیاجا رہا ہے اس لئے اس کے نام کی حد تک تبصرہ بھی ہو سکتا ہے اور اس کے اثرات بھی بیان کئے جا سکتے ہیں۔ٹی وی پر چلنے والے اشتہار کے مطابق ڈونکی راجہ سب جانوروں کا راجہ بن کر انکی ٹھکائی کرتا ہے ۔ میرا خیال تھا کہ ملک کے بچے اس فلم سے لطف اندوز ہوں گے اور کسی حد تک ان بچوں کے والدین بھی انجوائے کریں گے لیکن لگتا ایسا ہے کہ فلم کے شائقین سے زیادہ ’’متاثرین ‘‘ ہیں ۔
اس بات کا احساس گزشتہ روز اس وقت زیادہ شدت سے ہوا جب میں ’’راجہ ٹی سٹال ‘‘ سے حسب عادت چائے پینے کے لئے گیا ۔ دودھ پتی کا آرڈر دینے کے بعد ابھی پوری طرح ’’تشریف‘‘ کرسی پر ایڈجسٹ بھی نہیں ہوئی تھی کہ نجی ٹی وی چینل سے مذکورہ فلم کا اشتہار چلنا شروع ہو گیا ۔ اچانک میرے ذہن میں آیا کہ ہوٹل کے مالک راجہ صاحب کو اس اشتہار پر چھیڑا جا سکتا ہے ۔ چنانچہ ازراہِ تفنّن میں نے راجہ صاحب سے پوچھ لیا کہ اس فلم کا آئیڈیا آپ کو کس نے دیا اور کتنا خرچ آیا اس فلم کی تیاری پر ؟ بس میرا سوال کیا تھا کہ جلتی پر تیل تھا؟ راجہ صاحب نے نہ آئیڈیئے کا ذکر کیا اور نہ فلم اخراجات کا ذکر کیا اور دل کھول کر جو جو گالی انہیں یاد تھی وہ انہوں نے فلم ساز ، فلم کے پروڈیوسر ، فلم کے ہدایتکار اور دیگر تمام منصوبہ سازوں کو دے کر اپنا غبار ہلکا کیا۔
راجہ صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے یہ میڈیا والے ’’سجی دکھا کر کھبی ‘‘ مارتے ہیں ۔ خطہ پوٹھوہار کے معتبر راجاؤں کے خلاف یہ فلم سازش ہے اور میڈیا والوں کو نہ تو اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کی عزت سے سروکار ہے ۔ ہر گھر میں ڈونکی راجہ ڈونکی راجہ کا ڈھول پیٹ پر کیا حاصل کیا گیا ہے ؟
سوائے اس کے کہ پہلے مجھے اہل محلہ اور دوست احباب راجہ صاحب کہہ کر پکارتے تھے اور اب جونہی گھر سے نکلتا ہوں تو گلی کے کونے کھدروں میں چھپ کر شرارتی نوجوان آوازے لگاتے ہیں ’’ڈونکی راجہ ‘‘اور پھر چھپ جاتے ہیں ۔
راجہ صاحب نے ایک شہرہ آفاق لطیفہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ میراثیوں کی ماں مر گئی تو فاتحہ خوانی پر بیٹھے بیٹھے میں وہ تنگ آ گئے تو کہنے لگے یار لوگوں کا دل بہلانے کے لئے ساتھ میں ہلکی ہلکی ڈھولکی بھی نہ ہو جائے ۔ یہی حال ہمارے خلاف فلم بنانے والے میڈیا کا ہے کہ انہیں لمبی رقمیں دینے والی حکومت جو کہ مر گئی ہے لہذا اب انہوں نے دل کو بہلانے کے لئے ہلکی ہلکی ڈھولکی بجانا شروع کر دی ہے ۔میں نے راجہ صاحب کو مزید ’’ہر کانے ‘‘ کے لئے کہا کہ آپ کے ہوٹل کے باہر لگائے ’’راجہ ٹی سٹال ‘‘ کے بورڈ پر کچھ شرارتی نوجوان چند روز پہلے راجہ سے پہلے ’’ڈونکی‘‘ لکھنے کی منصوبہ بندی بھی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ اس پر راجہ صاحب ایک بار پھر تیش میں آئے اور کہنے لگے اس کا بندوبست میں نے پہلے ہی کر رکھا ہے اور ہوٹل کے باہر خفیہ سی سی ٹی وی کیمرہ جو کہ چوروں کو پکڑنے کے لئے لگوایا تھا وہ کیمرہ ’’ڈونکی ‘‘ لکھنے والوں کو ضرور پکڑ لے گا ۔
بہرحال راجہ صاحب نے اس تیش میں اپنے ویٹر کو بلا کر حکم جاری کیا کہ میں نے حکم دیا تھا کہ جتنے دن یہ اشتہار چلے گا اتنے دن ٹی وی پر اس اشتہار والا چینل نہیں چلے گا ۔ ویٹر نے جواب دیا کہ راجہ صاحب اس اشتہار کا ساز اس قدر اچھا ہے کہ ہم ویٹر حضرات کچن میں اکثر اس پر ہلکا پھلکا ڈانس بھی کر لیتے ہیں ۔ ویٹر کے اس جواب نے راجہ صاحب کو آگ بگولہ کر دیا اور کہنے لگے تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ راجوں کی بے عزتی پر ہمارے ملازم رقص کرتے ہیں ۔ راجہ صاحب نے ٹی سٹال پر لگی ہوئی ایل سی ڈی کو ناجائز تجاوزات کا حصہ قرار دیتے ہوئے فوری طور پر دیوار سے اتارنے کا تاحکم ثانی آرڈر جاری کر دیا اور ویٹروں سے کہا کہ اگر رقص کرنے کا زیادہ موڈ ہو تو اپنے گھروں میں جا کر اس اشتہار پر رقص کیا کریں ۔دودھ پتی سے فارغ ہو کر میں تادیر یہ سوچتا رہا کہ ایک ٹی سٹال پر بیٹھے ہوئے راجہ صاحب کو اس اشتہار پر اور پھر فلم پر اس قدر ملال ہے تو اگر یہ فلم چند سال پہلے اس وقت بنتی جب راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم تھے تو یقیناً خطہ پوٹھوار میں فسادات پھوٹ پڑتے ۔
راجہ پرویز اشرف چونکہ ’’ جینوئن‘‘ پوٹھوہاری راجہ تو ہیں ہی لیکن ان کے دور میں ہونے والے فیصلے اور کرپشن کی وارداتیں آج بھی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہیں ۔ لہذا میرے خیال میں خطہ پوٹھوہار ’’ڈونکی راجہ ‘‘ فلم سے پیدا ہونے والے انتشار سے بال بال بچ گیا ہے ۔
ڈونکی راجہ فلم کے اثرات اور مضمرات بارے ایک اور سیاسی دوست سے تذکرہ کیا تو ان کا دعویٰ تھا کہ ڈونکی راجہ فلم رائیونڈ؟ میں بہت ذوق و شوق سے دیکھی جا رہی ہے اور رائیونڈ کے بچے بوڑھے غرضیکہ تمام عمر کے افراد پورے پورے ’’ٹبر‘‘ کے ساتھ بیٹھ کر اس فلم سے لطف اندوز ہو رہے ہیں حالانکہ ابھی ان کے برے دن چل رہے ہیں لیکن ڈونکی راجہ فلم نے انہیں تھوڑی سی تفریح فراہم کی ہے اور یہ بھی شنید ہے کہ اہالیان رائیونڈ نے ’’فلم ساز اور منصوبہ ساز‘‘ گروپ کو یہ تجویز بھی بھیجی ہے کہ ’’ڈونکی راجہ ‘‘ فلم کے اشتہار میں سے ایک جملہ درست کر دیا جائے اور جہاں کہا گیا ہے کہ ’’ ڈونکی راجہ بجائے گا اب سب کا باجا ‘‘ اس جملے کو اس طرح کر دیا جائے ’’ڈونکی راجہ بجے گا اب اس کا باجا ‘‘
مگر باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ فلم ساز گروپ نے فی الحال یہ ترمیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ابھی تک ’’ڈونکی راجہ ‘‘ سب کا باجا بجا رہا ہے اس لئے یہ جملہ تبدیل کرنا حقیقت کو تبدیل کرنے کے مترادف ہو گا ۔ مزید برآں اس گروپ کی طرف سے اہالیان رائیونڈ سے بھی کہا گیا ہے کہ ’’ڈونکی راجہ ‘‘ نے اچھا خاصا آپ کا بھی باجا بجا کر رکھا ہوا ہے اور آپ پھر بھی اصرار کر رہے ہیں کہ جملے میں ترمیم کر دی جائے ۔
مذکورہ فلم کے اثرات ’’زیر لب ‘‘ تحریک انصاف کے کیمپوں میں بھی پائے جا رہے ہیں اور تحریک انصاف کے لوگ کھل کر اظہار خیال کرنے کی بجائے اس فلم اور اشتہار کو گندے ذہن کی پیداوار قرار دے رہے ہیں اور یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ یہ لوگ ہم پر جتنا بھی گند اچھالیں گے اﷲ تعالٰی ہمیں اتنی ہی زیادہ بلندیاں عطا کرے گا ۔ البتہ فلم دیکھنے کے بعد ہی صحیح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا شکار کون ہوا ہے ؟
فی الحال یہ اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے کہ ’’ڈونکی راجہ ‘‘ کے شائقین زیادہ ہیں یا متاثرین زیادہ ہیں ؟ کیونکہ پاک سیکرٹریٹ میں کام کرنیوالے گریڈ 18 کے ایک بیورو کریٹ راجہ صاحب کو بھی یہی مسئلے درپیش ہیں ان کے دفتر کے باہر کچھ نچلے گریڈ کے لوگ اونچی آواز میں ’’ ڈونکی راجہ‘‘ پر تبصرہ شروع کردیتے ہیں اسی طرح فیصل آباد میں راجہ ریاض کے حلقے میں منچلوں نے ’’ ڈونکی راجہ‘‘ کا ترانہ بنایا ہوا ہے ۔
آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا؟’’
ڈونکی راجہ ‘‘ فلم میں ایک سین ’’ ڈونکیوں‘‘ کے اجتماعی’’ قتل عام‘‘ پر بھی ہونا چاہیے تھا اور ڈونکی راجہ کو فلم میں ان قصائیوں کیخلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے تھا جنہوں نے پورے پنجاب میں ’’ ڈونکیوں‘‘ کو بکروں کے بھائو بیچا بھی اورلوگوں کو کھلایا بھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]