نیب یا درشنی پہلوان

ڈی بریفنگ؍شمشاد مانگٹ
ویسے تو ہمارے ہاں تقریباً تمام تحقیقاتی اداروں کا حال درشنی پہلوان جیسا ہی ہے کیونکہ کسی بھی ادارے کی کارکردگی اس کے دعوے اور معیار کے مطابق نہیں ہے۔ اسی طرح نیب بھی کرپشن کے خاتمے کیلئے سالہا سال سے دعوے کرتا چلا آ رہا ہے لیکن حیران کن طور پر کرپشن پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ نیب کے تازہ ترین بیانات اور دعوؤں کی روشنی میں یہ بات متعدد بار کہی گئی ہے کہ ہم نے ملک سے کرپشن کو ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔
نیب کا یہ دعویٰ یا عزم بالکل ایسا ہی لگتا ہے جیسا کہ تبلیغی جماعت والوں کے روبرو ہم کئی بار سال کا چلہ، چھ ماہ کا چلہ 40دن کا چلہ یا پھر سہہ روزہ لگانے کا عزم تو کر دیتے ہیں لیکن پھر کئی کئی دن مسجد ہی نہیں جاتے کہ کہیں نیک لوگوں کے ’’ہتھے‘‘ نہ چڑھ جائیں اور وہ مسجد میں بیٹھ کر کیا گیا وعدہ یاد دلا دیں۔



اس کے علاوہ نیب کا کرپشن کرنے کا عزم ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی گیدڑ بھبکیوں جیسا ہی محسوس ہوتا ہے ۔ پڑوسی ملک کی طرف سے اکثر و بیشتر یہ ’’بڑھکیں‘‘ سننے کو ملتی ہیں کہ اب پاکستان کو سبق سکھانے کا وقت آ گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ اب ہم پاکستان کی خلاف سرجیکل سٹرائیک کریں گے اور پھر ایسے کسی بھی حملے کے بغیر ہی سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ بھی کر دیاجاتا ہے۔
جس طرح ہم تبلیغی جماعت کے بھائیوں سے وعدے کر کے اللہ کے راستے میں نہیں نکلتے اسی طرح بھارت کے حکمران او رآرمی چیف دھمکیاں دیکر خاموش ہو جاتے ہیں البتہ سرحدوں پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے معصوم شہریوں کی جان سے کھیلتے رہتے ہیں تاکہ پاکستان کے لوگ ان سے ڈرنا شروع کر دیں مگر اس سے پاکستانیوں میںمزید ولولہ اجاگر ہو جاتا ہے۔
بالکل یہی صورتحال ہمارے نیب کی ہے۔ نیب نے اپنی مقبولیت کے لئے اب ’’طے شدہ‘‘ پریس ریلیز سے ہٹ کر ایک سروے کا سہارہ بھی لیا ہے۔ ایسے سروے عموماً ہماری شعبدہ باز سیاسی جماعتیں الیکشن کے دنوں میں کرواتی ہیں تاکہ عوام کو مزید بیوقوف بنایا جا سکے اور اس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہو جاتی ہے۔
چونکہ نیب کے پاس کیسوں کی بڑی تعداد سیاستدانوں کی ہے اس لئے نیب کے اندر سیاسی جراثیم کا پیدا ہو جانا بھی ایک فطری امر ہے۔ نیب کی طرف سے ایک سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے 59 فیصد عوام نیب کی کارکردگی سے مطمئن ہیں جبکہ 37فیصد افراد نے نیب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
نیب کی طرف سے جاری کی گئی اس ’’من پسند‘‘ پریس ریلیز میں باریکی کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ 29فیصد عوام مکمل طور مطمئن ہیں جبکہ30فیصد لوگ کسی حد تک مطمئن پائے گئے ہیں۔ مزید برآمد18فیصد پاکستانی نیب کی کارکردگی پر مکمل طور پر غیر مطمئن دکھائی دیئے اور19فیصد پاکستانی کسی حد تک غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ البتہ صرف چار فیصد لوگ ایسے نظر آئے جنہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں۔
نیب کا یہ نام نہاد سروے بھی بالکل سیاسی جماعتوں سے مکمل ہم آہنگی کا آئینہ دار ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیب نے یہ سروے اپنے ہی ادارے کے لوگوں کو سروے کرنیوالے افراد کے سامنے کھڑ اکر کے ’’مطلوبہ نتائج‘‘ حاصل کئے ہیں ۔ نیب کے زرخیز دماغوں نے ’’مطمئن‘‘ کی بھی دو کیٹگریز بنا کر اپنا الّو سیدھا کیا ہے۔بلاشبہ نیب ایک ایسا درخت ہے جس کی ہر شاخ پر الو بیٹھے نظر آتے ہیں ،لہٰذا اپنا’’الو‘‘ سیدھا کرنا نیب کا بنیادی حق ہے۔ ایک مکمل مطمئن اور دوسرا کسی حد تک مطمئن کی اصطلاح نکال کر کام چلایا گیا ہے۔ جس ادارے نے یہ سروے کیا ہے یہ ادارہ پہلے مسلم لیگ (ن) کے لئے ایسے ہی ’’مکمل مطمئن‘‘ نتائج والے سروے کر چکا ہے۔
چیئر مین نیب جسٹس( ر) جاوید اقبال کو خود چاہیئے کہ اتوار کے دن بھیس بدل کر اتوار بازار میں پہنچ جائیں ساتھ ساتھ سبزیاں اور فروٹ بھی خریدیں اور ساتھ ہی نیب کی ’’اوقات‘‘ بھی براہ راست عوام سے معلوم کرتے رہیں۔ اس طرح نہ صرف انہیں آٹے اور دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا بلکہ انہیں نیب کی مقبولیت کا ’’راز ‘‘ بھی معلوم ہو جائے گا۔



چیئر مین نیب اس حقیقت کو بے شک تسلیم نہ کریں لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ نیب بھی پولیس اور ایف آئی اے جیسا ہی ایک ’’کرپشن پذیر‘‘ ادارہ ہے۔ نیب نے کرپشن ختم کرنے کی بجائے اس میں کئی گنا اضافہ کیا ہے البتہ جو کام پولیس والے یا ایف آئی اے والے چند لاکھ روپے لیکر کر دیا کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں نیب کے ’’ماہرین‘‘ یہی کام کروڑوں روپے کے قیمتی پلاٹ یا نقدی لیکر کرتے ہیں۔
نیب والوں سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کے کریڈٹ پر کیا ہے؟ تو وہ گزشتہ بیس سالوں کے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر کہتے ہیں ہم نے اربوں روپے برآمد کئے جبکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ نیب نے ہر کمزور کا بھرکس نکال دیا اور ہر طاقتور کو مزید طاقتور بنا دیا ۔ نیب والوں کو جواب دینا چاہیئے کہ ڈاکٹر عاصم کے کیس میں قومی خزانے کو کیا ملا؟ شرجیل میمن کے کیس سے شہد اور زیتون کے تیل کے سوا کیا نکلا؟ یہ طاقتور لوگ تھے۔
اب نیب نے شہباز شریف کو پکڑا ہے لیکن یہاں معاملہ ہی الٹ نظر آ رہا ہے شہباز شریف دعویٰ کر رہا ہے کہ نیب والے صرف آدھا گھنٹہ تفتیش کرتے ہیں اور میرا وقت برباد کر رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف کے مطالبے پر نیب کو کم از کم تفتیش کا دورانیہ بڑھا دینا چاہئے اور یہ تفتیش آدھا گھنٹہ صبح آدھا گھنٹہ دوپہر اور آدھا گھنٹہ شام بھی ہو سکتی ہے۔ تاکہ کم از کم ملزم کو یہ دکھ تو نہ رہے کہ تفتیش بھرپور طریقے سے نہیں کی جا رہی ۔ البتہ یہ سوال الگ سے بہت اہم ہے کہ میاں شہباز شریف نے جس آدھا گھنٹہ تفتیش کا ذکر کیا ہے درحقیقت انکا اشارہ کس طرف ہے؟۔ بہر حال میاں شہباز شریف کا اشارہ جس طرف بھی ہو نیب کو دورانیہ بڑھانا ہو گا اور میاں شہبازشریف کو’’تفتیش‘‘ کے ذریعے مکمل مطمئن کرنا چاہئے ،فی الحال وہ مکمل ’’غیر مطمئن ‘‘ نظر آرہے ہیں۔ایسی تفتیش ضروری ہے جس سے حمزہ شہباز بھی کسی حد تک ’’مطمئن ‘‘ہوجائے۔
حکومت کو چاہئے کہ اگر نیب میاں شہباز شریف کیخلاف کچھ ثابت نہیں کر پائے تو اس ادارے کو فوری طور پر بند کر کے کرپشن کے خاتمے کے لئے کوئی نیا بندوبست کرے ،کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نیب ایک درشنی پہلوان ہے جو اکھاڑے میں اترنے سے پہلے شائقین کو اپنے مسل دکھا کر مطمئن کرتا ہے لیکن کشتی کرنے والے پہلوان اور ہوتے ہیں ۔ نیب ایسا درشنی پہلوان ہے جو بظاہر کرپشن کے خلاف کشتی لڑنے کا اعلان کرتا رہتا ہے لیکن خود سب سے بڑا کرپشن کا محافظ بن چکا ہے۔ کرپشن کیخلاف اکھاڑے میں اتارے گئے اس ’’درشنی پہلوان‘‘ کے اپنے افسران کے اثاثوں کو چیک کر لیا جائے تو سارے راز فاش ہو جائیں گے لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ کچھ عرصہ پہلے افسران کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے سی ڈی اے اور ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن پر آنے کے لئے زور لگایا کرتے تھے لیکن اب انکی ’’آرزوؤں ‘‘ کو مکمل اطمینان بخشنے والا ’’درشنی پہلوان‘‘ نیب بن چکا ہے۔

٭٭٭٭٭

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *