تحریر:حافظ امیر حمزہ سانگلہ ہل
مقبوضہ جموں کشمیر جو کہ حسین و جمیل وادی ہے اس کوبھارت سرکار نے وہاںکے رہنے والے باشندوںکے لیے جہنم زاربنایا ہواہے۔ مقبوضہ کشمیرکا مسئلہ کشمیریوںکی مجاہدانہ جدوجہدآزادی کی بناپر اس وقت عالمی سطح پرانتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔کشمیری عوام پر بھارت سرکار جو ظلم وستم کئی برسوںسے کرتی آرہی ہے، وہ پوری دنیا پرچڑھتے سورج کی طرح عیاںہے لیکن پھر بھی اہل کشمیر کابھارتی ظلم وستم سہنے کے باوجودبھارتی فوج کے سامنے اپنے حق خودارادیت کے لیے تحریک آزادی کوفروغ دینا اورپاکستان کے حق میںنعرے لگانایہ بہت بڑی جرأت اور بہادری کی بات ہے۔
اب کشمیر کے حل کے بارے میںفریقین کے رویے کو صحیح تناظرمیںدیکھنے کے لیے،پاکستان اور بھارت کی پوزیشنوںمیںبنیادی عدم مطابقت کو سمجھنا ضروری ہے۔وہ یہ کہ پاکستان کوبرصغیر تقسیم کے وقت ورثہ میںایک نہایت ہی کمزور،بکھری ہوئی اورغیر منظم فوج ملی تھی جس کاانحصارزیادہ تربرطانوی افسران پر تھااور انتظامی ڈھانچہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔اس کے برعکس بھارت کو انتظامی اور فوجی لحاظ سے زبردست برتری حاصل تھی۔چنانچہ1948ء کی محدود جنگ میںبھارتی فوج کشمیر کے اکثرحصہ پر قابض ہو گئی اور پاکستانی افواج نسبتاکم اہمیت کے پہاڑی علاقوںکو ہی زیرنگیںلاسکیں۔ابتدامیںالحاق کو محض عارضی قدم قراردیتے ہوئے بھارت نے یہی موقف اپنایا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام ،بین الاقوامی نگرانی میںمنعقدہ آزادانہ استصواب رائے سے کریںگے لیکن بعد میںبھارت نے اپنایہ موقف بدل کر کشمیر کو اپنااٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا۔ دوسری طرف جو علاقہ پاکستان کے پاس تھااس میںآزادکشمیر حکومت تشکیل پائی لیکن عملًا یہ حکومت پاکستان کے ماتحت ہی رہی۔
چونکہ پاکستان کے کار پردازوں کوبھارت پر کبھی اعتماد نہیںرہااور ایک قسم کاخوف بھی طاری رہا،اس لیے انھوں نے کوشش کی کہ کوئی تیسرا فریق مداخلت کر کے مسئلہ کشمیر کے حل میںمدد دے۔کشمیر کے تنازعہ کی ابتدا میںہی یعنی 1947ء میںقائداعظم محمد علی جناح نے جو پاکستان کے پہلے گورنرجنرل تھے ،برطانیہ سے مداخلت کی درخواست کی کہ وہ اس مسئلہ میںمداخلت کرے تاکہ دولت مشترکہ کے ممبر دو ممالک کے درمیان اختلافات طے ہو سکیں۔لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کہ وہ کسی تیسری قوت کی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا کیونکہ ملک بھارت چاہتا تھا کہ یہ معاملہ جوںکاتوںرہے۔جو کہ اُس وقت سے لے کر آج تک کشمیر کا معاملہ لٹکاہوا ہے جبکہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کا حل نہیںچاہتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی تسلط کے خلاف ایک بھرپور تحریک آزادی برپاہے جس نے بھارتی حکومت کو مکمل طور پرمفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد سے تحریک آزادی جموں کشمیر کے جوش اور جذبہ میںحیران کن تبدیلیاں آئی ہیں۔اب کشمیریوں پربھارتی فوج جو کہ اسلحہ سے لیس ہے یعنی پوری قوت سے کشمیریوں پرظلم و ستم کر رہی ہے لیکن پھر بھی کشمیری عوام ان کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سینہ تان کر کھڑے نظر آتے ہیںاور بڑی جرأت اور بہادری سے یہ اعلان کرر ہے ہیں کہ کشمیر بنے گا ،پاکستان ،پاکستان کا مطلب کیا؟’’لاالہ الااللہ‘‘ اور اس کااظہار کرتے ہوئے پوری دنیاکے مسلم ممالک کے سربراہان کو جھنجوڑرہے ہیںکہ کون ہے جو ہماری آوازسے آوازملائے اور ہمارے موقف کی تائید کرتے ہوئے ہمارے قدم سے قدم ملاکر ہمارے حوصلوںکو جلابخشے اور ہماری آزادی کے لیے ہمارے اوپر سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کو چھوڑا کرہمیں بھی آزادی جیسی عظیم نعمت دلوائے ۔
ان حالات میں ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم تمام مذہبی ،سیاسی اور تنظیمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کریںتا کہ تحریک آزادی کشمیر مزید مضبوط اور مستحکم ہو تاکہ کشمیری عوام جان لیںکہ پاکستان کا ہر بچہ ،نوجوان اور بوڑھا کشمیر کی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،کیونکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا :’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ ۔
آخرمیں کشمیر کے باسیوں کو سلام پیش کرتاہوںکہ جو بھارتی ظلم وستم سہنے اور گولیوںکانشانہ بننے کے باوجودپاکستان سے محبت کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے ۔پاکستان زندہ باد، کشمیر بنے گا پاکستان ۔ان شاء اللہ
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]