جو رت جگے کی صلیبوں پہ آ بسا ہو گا
کسی نے آنکھوں کا سپنا بنا لیا ہو گا
دھرے نہ کان کسی نے بھی التجا پہ مری
“گمان تھا کہ ہر اک شخص ہمنوا ہو گا”
بجھانے آئی تھیں صر صر کی آندھیاں جس کو
اسی نے سانسوں پہ پہرہ بٹھا دیا ہو گا
جو دل پہ گذری سبھی نذر دوستاں کر دی
دریدہ زخموں پہ مرہم بھی ہنس پڑا ہو گا
مرے حروف شکستہ کا مان رکھنے کو
محبتوں نے فسانہ بنا لیا ہوگا
درون آب کی ان شورشوں سے گھبرا کر
کنول نے خاک میں خیمہ لگا لیا ہو گا
ایم زیڈ کنول۔لاہور
[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]