اللہ کے نام خط

…… ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
(پڑھ کر شئیر کریں بس یہ ہی آپ کا تحفہ ہے)
ایک شخص مسجد کے پنکھے چوری سے کھول کر لے گیا اور اس نے اللہ کے نام خط لکھا .اے خدا تو جانتا ہے میں چور نہیں مگر میرے بچے بھوکے ہیں تو رب العالمین ہے اور میں صرف اپنے بچوں کا باپ ہوں پیسے ختم ہو گئے ہیں ان کےرزق کا انتظام کرنا ہے تھوڑی تنخواہ ہے جلدی ختم ہو جاتی ہے جب میرے پاس پیسے آئیں گے میں تیرے گھر میں نئے پنکھے لگا دوں گا.”” اس تحریر کا مقصد برائی کا جواز نہیں بلکہ ابھی دل تھام کر اور پڑھیے رمضان المبارک کے ایک جمعہ کی بات ہے میں جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا تو نظر ایک بوڑھی عورت پر پڑی .آنکھ بھر آئی .دل.کانپ گیا کہ ایک ماں جوتوں پر بیٹھی کہہ رہی تھی بیٹا اپنی ماں کے نام کا صدقہ دے دو.بیٹا میں بھی تو ماں ہی ہوں , کچھ راشن لے دو ,دل چاہ رہا تھا چیخیں مار مار کر رووں اور حاکم وقت سے سوال کر ڈالوں کہ اس ماں کا کیا قصور ہے؟میرے ایک دوست نے میرے جذبات بھانپ لیے اور کہنے لگا کہ افسردا نا ہو پتہ ہے تو نرم دل ہے مگر یہ پیشہ ور گدا ہے میں اس عورت کو چھ مہینے پہلے سے یہاں ہی دیکھتا ہوں .میں نے اپنے دوست کا ہاتھ تھاما اور لے گیا اس بوڑھی کے پاس کہا اماں آپ کب سے یہاں مسجد کے جوتوں پہ آ کر مانگتی ہیں .امأں نے کہا جب سے میرا بیٹا فوت ہو گیا.میرا دوست حیران ہو گیا .بیٹا سرکار کا نوکر نہیں تھا مزدوری کرتا تھا سخت گرمی میں بیمار ہوا پھر دال روٹی بھی گئی اور علاج تو لا علاج تھا ظاہری بات ہے .پھر وہ دنیا سے چلا گیا شوہر تھا نہیں رشتے دار کون بنتا ہے یا اس حال میں رہتا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں .مجھے اس دن پتہ چلا سرکاری نوکر ہونا کتنے فائدے کی بات ہے اور یہ بھی کہ جو سرکاری نوکر نہیں اسے پاکستانی کہلانے کا پاکستانی ہونے کا باعزت شہری ہونے کا حق بھی حاصل نہیں میرا یہ جملہ متوسط گھرانوں کے لیے ہے .ہو سکتا ہے آپ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی اس بات سے اختلاف کریں مگر حقیقت یہی ہے ماننا پڑے گا “” پاکستان بے شک غریب لوگوں نے بنایا مگر وہ گدا گر نہیں تھے. مگر آج ہمارے آدھے پاکستانیوں کو حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے گدا گر بنا دیا ہے .آدھے لوگوں کی زندگی ادھار لے لے کر گزارنے کی سطح پر لا کھڑا کیا ہے اور آدھے لوگوں کو چور بنا دیا ہے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے پاکستان غریب کے لیے بنا ہی نہیں “””.



سوچیں .جس قوم کی مائیں اپنے ایک دن کے کھانے کے لیے جوتوں میں بیٹھ کر جھولی پھیلائیں . ایسی قوم کا حاکم وقت کیسا ہو گا … کیا یہ تصویر دیکھ آپ کو عمر رض کے الفاظ نہیں یاد آئے کہ بکری یا کتے کا بچہ بھی دریائے فرات کے کنارے بھوکہ مرا تو عمر جواب دے ہو گا.حکمرانوں سے ایک سوال کیا آپ کے جسم کی مٹی اے سی کے بنا پگھل جائے گی .بڑے گھر نا ہوئے تو آپ کی افزائش نسل کا عمل رک جائے گا.آپ اپنے بچوں کو تحفے میں , عیدی میں گاڑیاں نا دیں تو کیا بچے مسکین ہو جائیں گے .آپ چارٹرڈ طیارے میں سفر نا کریں تو عمرہ قبول نہیں ہو گا .ارے تمھیں کیوں سمجھ نہیں آتی تمھاری ماوں نے وہ سبق کیوں نہیں پڑھائے کے حاکم وقت کی سانس بھی قوم کی سانس ہوا کرتی ہیں یہ منصب عیاشیوں کے لیے نہیں خدمتوں کے لیے ہوا کرتے ہیں. بوڑھی ماوں کا تپتی دھوپ میں سڑک کے کنارے اور چھاوں کے لیے مسجد کی جوتیوں پر بیٹھ کر مانگنے والی تمام تصاویر اور مناظر در دل پہ دستک دیتے ہیں یہ تصویریں چیختی ہیں… اگر کوئی مسجد سے نکلے خوف خدا کی کیفیت رکھنے والوں سے سوال کیا اس ملک میں انجینر بے کار گھروں میں بیٹھے ہیں ایم فل , پی ایچ ڈی لوگوں کو نوکریاں مل رہی ہیں ؟ جواب میں نہیں کہا جاتا ہے .تو یہ بوڑھی عورتیں جن کے دامن میں دعاوں کے سوا کچھ نہیں .ان کو کہاں نوکری ملے گی ان کو کہاں تنخواہ ملے گی ارے تو یہ پیشہ ور گدا گر نہیں ہوئے انہیں حاکم وقت کی پالیسیوں نے ایسا بنا دیا .آپ میں ان کے ذمہ دار نہیں ریاست ہے اور ریاست کو چلانے والے حکمران ہیں .ان کے پاس تو صرف امید کی ڈگری ہے .ان کے پاس تو صرف بزرگ ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے ان کے پاس صرف وطن کی سلامتی کے الفاظ ہیں ان کے پاس شالا حیاتی ہووے کے دعائیہ الفاظ ہیں ان جذبات کے بدلے روٹی دے دو کپڑا دے دو اور سنو بیٹا اپنی امی کا صدقہ دے دو .اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ اپنی پاکٹ منی سے ان کی روٹی کا بندوبست کر دیا کرو .اپنی استطاعت کے مطابق دو یہ محتاجی بہت بری چیز ہے اللہ آپ کو کسی کامحتاج نہ کرنے اللہ آپ کو اتنا نوازے کے آپ لوگوں میں بانٹیں خوشیاں آسانیاں اور محبتیں.ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی یہ تحریر دردل پہ دستک ہے اگر کبھی ضمیر آپ کو اس کام کی دعوت دے تو فقط ایک اصول سامنے رکھنا میں اللہ کی مخلوق کو آسانی دوں گا اللہ مجھے آسانیاں دے گا میں پھر آسانی بانٹوں گا اللہ پھر آسانیاں دے گا بس اللہ سے اسی لین دین میں میری عمر تمام ہو جائے گی جب اس کے پاس جاوں گا تو وہ کتنا خوش ہو گا فرشتے کہیں گے یا اللہ یہ تیرے بندوں سے بہت پیار کرتا تھا یہ آسانیاں بانٹا کرتا تھا اے اللہ تو اس سے محبت کر اس سے راضی ہو جا یہ اسی کا حق دار ہے. اگر آپ تصوف کی حقیقت چاہتے ہیں تو کھانا کھلائیں آپ پر تمام منازل آسان کر دی جائیں گی شاید آپ کو.میرے اس جملہ سے یہ بات سمجھ آ گئی ہو گی کہ اللہ والوں کے آستانوں پہ لنگر خانے کیوں ہوتے ہیں اللہ کے ولی مہمان نوازی کیوں کرتے ہیں.ابراہیم علیہ السلام مہمان کے بنا کھانا کیوں نہیں کھاتے تھے .

ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کا یہ آرٹیکل جہاں حکمرانوں اور عیاش عوام سے ایک سوال ہے وہاں اللہ سے دوستی کا ایک راز اور آسان سفر بھی ہے جو آپ کو بتا دیا اب عمل کرنا آپ کا کام ہے .

شکریہ

شکریہ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کے نام سے ہمارا فیس بک پیج بھی پسند کر لیں شکریہ
https://www.facebook.com/Dr.M.AzamRazaTabassum/

[facebook][tweet][digg][stumble][Google][pinterest]



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *